طب اکبر کے متعلق چند باتیں
اللہ رب العزت نے رسول اکرم علی عوام کو کائنات کی تمام مخلوقات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا یہ رحمت روحانی بھی ہے اور مادی بھی اور اس کا فیض عام ساری کائنات پر ہوا۔ جہاں آپ کی تعلیم دنیا کے ہر فرد اقوام کے لیے روحانی ہدایت کا مقام رکھتی ہے وہاں ان کے جسمانی ظاہری و باطنی امراض کے لیے طب کامل کی حامل بھی ہے۔ جہاں آپ نے دنیا کو تمدن و معاشرت کے اعلیٰ اصول بتائے وہاں صحت بخش اور پاکیزہ زندگی کے بیش قدر اور انمول فارمولے سے بھی نوازا۔ رسول اکرم صلی عوام نے جسمانی تربیت و نشو و نما کے تمام چھوٹے بڑے گوشوں کو بے نقاب کر کے ایسی مفید آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاند پر پہنچ کر بھی آپ کی تعلیمات کی پابند و محتاج ہے۔ زمین پر پھیلی قدرت کی بے شمار دھاتیں اور جڑی بوٹیاں وغیرہ جانور جو کہ مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیئے گئے ہیں ان سب کی مفید خصلتیں اور ان کے استعمال کے طریقے بتائے طب نے دنیا میں جتنی ترقی کی اور اس کی رفتار دن بدن ترقی پذیر بھی ہے، لیکن محمد رسول اللہ لی لی ہم نے بحیثیت نبی اسلام روحانی اور جسمانی حفاظت اور اس کو صحیح رکھنے کا جو نسخہ تجویز فرمایا ہے اس پر طبی دنیا باوجود بے شمار ترقی کے اس نسخہ کا مقابلہ نہیں کر سکی اور طب نبوی کے سارے اصول بھی شریعت اسلامیہ کی طرح اسی وحی کے ترجمان ہیں۔
وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ، (الحاليه :١٣) انسان بنیادی طور پر مذہب سے رہنمائی کا طالب ہوتا ہے اور اسے امید ہوتی ہے کہ اسے مذہب میں صداقت اور سچائی مل جائے گی ۔ خود مذہبی نظام اپنے مخصوص اصولوں اور رہن سہن کے متعین و مقرر ضابطوں پر مشتمل ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے اس کے ماننے والوں کی شخصیت کی تعمیر ہوا اوراخلاقی اعتبار سے وہ فروغ پاسکیں۔ ذہنی دباؤ اور کرب کی صورت میں عقائکہ یا رسم و رواج روایات اور مذہبی ادارے مدد اور نجات کے بنیادی وسائل ثابت ہوتے ہیں۔
انسان آغاز تاریخ ہی سے جذبات اضطرار اور ذہنی کرب کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اپنی اس تکلیف سے نجات کے لیے بنی نوع انسان نے مختلف ذرائع کو اختیار کیا ہے اور طرح طرح کی کوششیں کی ہیں۔ اس نے اس ضمن میں فطری وسائل کے علاوہ مافوق الفطری وسیلوں کا دامن بھی تھاما ہے۔ دنیا کی رنگارنگ ثقافتوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی اعتقادات اور روایتی طریقوں سے قطع نظر ذہنی آسودگی کے فروغ اور دماغی انتشار کے خاتمے میں مذہب کو ہمیشہ ہی سے مرکزی مقام و اہمیت حاصل رہی ہے۔ ذہنی پستی واضمحلال میں جتلا شخص منفی انداز فکر اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی اس کے جی میں آتا ہے کہ خود کشی کر کے اس جہان کرب و الم سے منہ موڑ لے، لیکن اس خواہش کی شدت کے باوجود ایک قوت اسے اس اقدام سے باز رکھتی ہے۔ ماہرین نے دوران علاج جب اس قسم کے لوگوں سے سوالات کیے تو انہوں نے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عین اقدام خودکشی کے وقت انہیں اللہ کے رحم و کرم کا وعدہ یاد آیا۔ اور یہی بات انہیں اس اقدام سے باز رکھنے کا باعث بنی۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایسے نازک وقت میں کسی مسلمان کو اللہ تعالٰی کا یہ فرمان لفظ بہ لفظ یاد نہ ہو کہ "اے مسلمانو! خود کو ہلاک نہ کرو کیوں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔ تاہم اپنی تعلیمات سے آگاہ ہر مسلمان یہ ضرور جانتا ہے کہ اس کے خالق نے خودکشی سے منع فرمایا ہے۔ یہ قدم اس کے مذہب اور عقائد کی نظر میں مذموم ہے لہذا اسے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلام نے شراب کو حرام قرار دے کر ایک بڑا اہم مثبت اقدام کیا ہے۔ شراب نوشی جیسے پیچیدہ مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ اسے حرام سمجھ کر ہاتھ نہ لگایا جائے۔ جہاں تک امراض و علاج کا تعلق ہے ہم بدستور مغرب کی اندھی تقلید کر رہے ہیں ۔ کروڑوں روپے کے خرچ سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں ڈاکٹر اندرون و بیرون ملک روزگار کے متلاشی ہیں۔ ان کے لیے دیہی علاقوں میں کام کرنے کے مواقع نکالنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، لیکن طب جدید کے یہ عالمین جو بخار کا پتا چلانے کے لیے تھرما میٹر کے محتاج ہیں جدید گراں معالجاتی آلات، مشینوں اور مہنگی دواؤں کے بغیر کام کرنے سے قاصر ہیں؟