ترے کلامِ صداقت کا اعتبار رہے

Dynamic Share Icon

 ترے کلامِ صداقت کا اعتبار رہے
ہر ایک درد میں کچھ سچ کا انکسار رہے

ہزار بار بھی ٹوٹے مگر! اے شاخِ زیست
ہر ایک لحظہ درختوں سے استوار رہے

اگرچہ چھین لے قندیلِ شب، ہواۓ نگر
خوشا!وہ دل کے تمنا میں بھی بہار رہے

نقوشِ شہرِ تمنا مٹے بھی ہیں لیکن
ہنوز خاک میں کچھ لمسِ یارِ غار رہے

یہ عہدِ شوق کبھی پھر نہ دیکھ پائیں گے
مگر نقاب میں چہرہ تو آشکار رہے

بکھر گیا ہے بدن،جیسے لفظ ٹوٹے ہوں
کہیں غبار میں آہنگِ انتشار رہے

بدن پہ وقت کی دستک تو روز ہوتی ہے
نگاہِ ناز میں کچھ خواب جاں فگار رہے

وہ گفتگو جو بنامِ وفا شروع کی تھی
اسی میں رازِ فنا کا بھی افتکار رہے

میں ٹوٹ جاؤں مگر جھوٹ کو زباں نہ دوں
قلم کے رزق میں سچ کا ہی روزگار رہے

میں روشنی کا مسافر،وہ سایہ دار خیال
ہو انحراف سہی،پر کوئی مدار رہے

یہ ریت ریت تعلق، یہ زخم زخم جمال
نہ کوئی پیار ملے، نہ کوئی مزار رہے

جب اہلِ فکر و قلم ہو نشستِ یاراں میں
ہنر یہی ہے کہ چشؔتی بھی ہوشیار رہے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے