شیشے میں کبھی خود کو سنورتے نہیں دیکھا

Dynamic Share Icon

شیشے میں کبھی خود کو سنورتے نہیں دیکھا
ہونٹوں کو طبیعت سے بھی ہنستے نہیں دیکھا

جس طرح کہ انسان اڑا کرتے سرِ عرش
پنچھی کو بھی اس حال میں اڑتے نہیں دیکھا

ملنے گیا تو چشمِ بصیرت چلی گئی
ہجرت کی رات اس کو بچھڑتے نہیں دیکھا

اک بوریے پہ رات گزاری ہے عمر بھر
مخمخل میں اک غریب کو سوتے نہیں دیکھا

تجسیم سے جس طرح کہ جھڑتے ہیں مرے بال
اشجار سے پتوں کو بھی جھڑتے نہیں دیکھا

یہ کیسا میکدہ ہے کہ رندوں کو آج تک
ساقی کے پاس سے کبھی آتے نہیں دیکھا

ہر خواب کی تعبیر مکمل نہیں ہوتی
ہر خواب کو آنکھوں میں اترتے نہیں دیکھا

ہر چیز کا ہے وقت، وہ ہو کر ہی رہے گی
موسم سے پہلے پھول کو کھلتے نہیں دیکھا

دیکھو غریبِ شہر نے بچے پڑھا دیے
لیکن امیر زادے کو پڑھتے نہیں دیکھا

چشتی! وہ لوگ جن کو خدا پر یقیں نہیں
سائے کو اپنے ساتھ بھی چلتے نہیں دیکھا

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے