شبِ دیجور کی اک آہ سے بیدار ہوا

Dynamic Share Icon

شبِ دیجور کی اک آہ سے بیدار ہوا
پھر ترے عشق کے جنجال گرفتار ہوا

رات کے آخری لمحے میں تجھے یاد کیا
صبح ہوتے ہی ترے چہرے کا دیدار ہوا

جب تری یاد شبِ تار سرہانے آئی
لفظ پھر آتے گئے شعر بھی تیار ہوا

میں ہوں گفتار کے غازی میں ہی گونگا ٹھرا
نقل در نقل سے وہ ماہرِ گفتار ہوا

روزِ محشر کہ مرا نامۂ اعمال کھلا
بارِ عصیاں سے مرا جسم گراں بار ہوا

راہ چلتے ہی نظر بارِ دگر اس کی طرف
دفعتاً اٹھنے لگی پھر سے گنہ گار ہوا

بس زلیخا ہی نہیں عشق میں گرویدہ ہوئی
حسنِ یوسف کا اثر مصر کا بازار ہوا

حاصلِ عشق سے دشوار کوئی کھیل نہیں
جاں لٹا کر کے کہیں یار خریدار ہوا

محفلِ رند سجی جلوہ نما ساقی ہوۓ
شمعِ محفل بھی بنا چشتیِ مے خوار ہوا

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے