Dynamic Share Icon
ایک سنجیدہ دیہی منظر جس میں مسجد، کتاب اور اسلامی آرائشی سرحد شامل ہے، جو علمائے کرام کی علمی خدمات کی علامت ہے۔

سیمانچل میں اکابر علما کی ناقدری

غریب نواز چشتی

سیمانچل کے علمائے کرام کی مذہبی، دینی ، ملی، سماجی، سیاسی، ثقافتی، علمی اور روحانی کارنامے کافی اہمیت کے حامل ہیں ، سیمانچل کی تعمیر و ترقی کے لیے جہاں بہت سے ماہرین اپنے تیئں کام انجام دے رہے ہیں وہیں علماے کرام کی بھی خدمات آب زرسےلکھنےکےقابل ہے ، سیمانچل کے عوام الناس کو علمی،ادبی ، سماجی، معاشرتی اور روحانی حلقوں میں جوڑنے کے لیے علماے کرام کا اہم کردار رہا ہے ، یہاں کے علما نےہر دور اور ہر عہد میں اپنی کارکردگی کو موثر انداز میں پیش کیاہے اورنمایاں کارنامےانجام دیےہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے اکثر خطے میں یہاں کے افراد حصول علم کے لیے کوشاں ہیں صرف یہ ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں جاتے ہیں اپنی چھاپ ضرور چھوڑ دیتے ہیں ۔
اگر انھیں اس کدو کاوش کا صلہ بھی ایسا ملتا تو بات کچھ اور ہوتی لیکن معاملہ برعکس نظر آتا ہے
آپ اگر اہل سیمانچل کے وہ نازیبا سلوک کے بارے میں پوچھیں گے تو میں گویا کہوں گا کہ ہمارے اکابر علما کی عزت و توقیر اور قدر و منزلت جیسی ہونی چاہئے اس قدر نہیں ہو پا رہی ہے ، اور اس بات سے کوئی روگردانی نہیں کرسکتا ،بایں سبب کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ،،چراغ تلے اندھیرا ہے،

جہلا کی قدر دانی : ہمارے سیمانچل کے جو باصلاحیت علما ہیں ان کی ناقدری کرکے ان حضرات پر زیادہ توجہ اور زیادہ وقعت و عزت دی جاتی ہے جو زیادہ چیختے ہیں ، چلاتے ہیں اور غل مچاتے ہیں۔اور بڑی بڑی ٹوپیاں ، لمبے لمبے جبے اور مثل خاتون بال رکھتے ہیں اور اس قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہ قوم انھیں ہی بڑا علامہ، فہامہ اور اپنا رہنما گردانتی ہے اور ان کی خوب جی حضوری کرتی ہے ۔ جب کہ اس گروہ میں اکثریت کا تعلق علم و ادب سے ہےہی نہیں۔ بس "لفاظی” کے یہ شہسوار ہیں۔ اور اب بنظر عمیق ان شخصیات کو دیکھیں جو علم و ادب میں شہسوار ، استعداد و صلاحیت میں کوہ ہمالہ ، فکر و فن کے کوہ گراں اور تعمیر ی و تأسیسی کاموں میں یکتائے زمانہ نظر آتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دعوتی، تبلیغی ، اشاعتی،یا زمینی سطح پر کام کرنے والے علماے کرام کی اتنی قدر دانی نہیں ہوتی ہے جو ایک واویلا مچانے والے کی ہو جاتی ہے مفت کے مفتی کہنے والے کی ہو جاتی ہے ۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟
سیمانچلیوں کا ناروا سلوک : اب وہاں کے حالات کو بھی عیاں کرتا چلوں کہ وہاں کے حالات تو یہ ہے کہ ان کی ظاہری حیات میں شاید ڈھنگ سے سلام بھی کیا جاتا ہو؟ کیوں کہ انہیں چلانا و چینخنا نہیں آتا کہ انھیں اس لائق سمجھا جائے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس میں علماے کرام کی ظاہری زندگی میں زیاں اور نقصان تو ہو سکتا ہے، لیکن اللہ تبارک و تعالی ان کی صلاحیت و قابلیت میں کمی نہیں کرے گا ، وہ تو ترقی کے زینے پر قدم رکھتے ہی چلے جائیں گے لیکن نقصان و خسران بلاشبہ اہلِ سیمانچل کا ہوگا ۔
اس نقصان کا سامنا ہمیں بایں صورت اٹھانا پڑا کہ ہم ایسے لعل و گوہر سے محروم اور بے بہرہ رہے جن کی ذات سے ہمارے یہاں کے حالات و معاملات آراستہ و پیراستہ ہوسکتے تھے ، جن سے ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی تھیں ، تمام برائیوں کا سدباب ہوسکتا تھا ، اور علمی، ادبی فضا قائم ہوسکتی تھی ، وہ اچھے قائد و رہبر کے طور پر ہمارے لئے مفید و موثر اور کارگر ثابت ہو سکتے تھے ۔ لیکن ان سب کا فقدان نظر آرہا ہے ۔۔ اس لیے اہلِ ہوش کے ناخن لو ۔۔
سیمانچل تعلیمی اعتبار سے ترقی نہیں کر پاتا ہے، اس کے پیچھے بھی یہ بات مخفی ہے کہ ہم اچھے علماے کرام سے وابستگی نہیں رکھتے اور ان کی باتوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے اگر ہم علماےکرام کی تائید و حمایت اور سپورٹ کریں یا ہم ان کو وہ اہمیت و وقعت دیں جو ہم غیر صلاحیت مند علما اور نیم مولویوں کو دیتے ہیں تو اچھا انقلاب آسکتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کے حالات: یہاں کے مدارسِ اسلامیہ کے حالات کا اگر جائزہ لیجیے گا تو معلوم ہوگا کہ مدارس میں پڑھانے والے اچھے اساتذہ تک نہیں ہوتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم علماے کرام کو وہ معقول تنخواہ دینا نہیں چاہتے جس پر ان کی زندگی گزر بسر ہو سکے، تو ان مدارس میں وہی علما رہ جاتے ہیں جو نرے سے جاہل ہوتے ہیں، جن کو علم وفن،اور درس و تدریس سے کوئی وابستگی نہیں رہتا، بس وہ کسی قدر گزر بسر کرنے کے لیے ان اداروں میں معمولی تنخواہ میں گزر بسر کر لیتے ہیں۔
تو اس سے کیا قوم کا بھلا ہوگا ؛ الا نقصان ۔۔

ہاں یہ قوم ایسی ہی جب ان صلاحیت مند شخصیات کا انتقال ہوتا ہے تو چونکہ دنیا بھر میں اور بالخصوص اہلیان علوم و فنون کے نزدیک عظیم المرتبت عظیم البرکت شخصیت کے حوالے سے ان کی پہچان تھی ۔۔ تو اپنی شناخت بچانے کے لیے نماز جنازہ میں حاضر ہوں گے لیکن وہاں بھی آنا فقط ریا معلوم ہوتا کیوں کہ وہ آکر بڑے بڑے موبائل ہاتھ میں رکھ کر خوب سیلفیاں لیتے ہیں ۔ اور ناجانے کہاں کہاں ، ادھر ادھر تشہیر کرتے رہتے ہیں ، اور جب ان کے اعراس آتے ہیں تو آکر چند تحمیدی کلمات بول کر سوچتے ہیں کہ ہم نے ان کا حق ادا کردیا ۔ جب کہ ان کی روح تڑپ کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ اے کاش ! رہتی دنیا میں مری قدر کر لیتے تو آج عظیم کارہا انجام پاتے ۔ بس ان کی حسرت حسرت بن کے رہ گئ ہوتی ہیں ۔۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ اے سیمانچل کے بے حس مسلمانوں! ابھی بھی وقت ہے با وقار علما و فضلا ہم میں سراپا تشریف فرما ہیں، جو واقعی ”العلماء ورثۃ الانبیاء“ کے مصداق ہیں، غنیمت جان کر ان کی قدر و منزلت کو سمجھ کر ان کی محافل و مجالس میں شرکت کرکے، ان میں عمل پیرا ہونے کی حتی الامکان کوشش کریں، تو امید قوی ہے کہ انقلاب ضرور بالضرور برپا ہوگا اور ہر جہت سے کامیابی و کامرانی کے منازل پر فائز ہوں گے۔ اگر نہیں تو سمجھ لیں کہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیے جاؤ گے ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی بات پر اختتام کروں گا کہ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو !
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے