
سرمایہ دارانہ نظام اور سیمانچل
غریب نواز چشتی
کسی بھی علاقہ، قوم اور سوسائٹی کے زوال میں متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں چاہے وہاں کی مذہبی، ملی، سیاسی ابتری ہو یا سماجی، معاشرتی، ثقافتی بدحالی۔ تاہم ہر تنزلی کا سرا کہیں نہ کہیں وہاں کے باشندگان کی فکری جمود اور عملی بے حسی سے ملا ہوتا ہے۔ ہمارا محبوب علاقہ سیمانچل بھی کچھ اسی قسم کے بحران سے دو چار ہے۔ اس کی پسماندگی کے پیچھے نہ جانے کتنے وجوہات مل جائیں گے، مگر سب کو ایک مختصر تحریر میں سمیٹنا مشکل کام ہوگا۔ بہر کیف اس تحریر میں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے سیمانچل میں ہو رہے فسادات پر خامہ فرسائی کی ادنی سی کوشش کی جارہی ہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ”سرمایہ دارانہ نظام“ کا کوئی بھی تصور مذہب اسلام میں نہیں ہے۔ بلکہ انسانوں میں سے جو مالدار ہیں انہیں ”انفاق فی سبیل اللّٰہ“ کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مختلف ذریعے ہوسکتے مثلأ خالص لوجہ اللّٰہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا، مذہبی، فلاحی اور رفاہی کاموں میں تعاون دینا وغیرہ۔ مگر برا ہو سرمایہ داری کے فرسودہ نظام کا جس میں مالی طور پر مستحکم طبقہ اپنے سے کمزوروں کو دباتا ہے۔ وہ لوگ جو زمین و جائداد اور املاک و ملکیت کے اعتبار سے کمزور ہیں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ مایہ دار لوگ انہیں فکری اور عملی طور پر اپنا مطیع و فرماں بردار بنائیں رکھتے ہیں، اور اگر وہ ان کے احکامات کی تعمیل نہ کریں تو ان کی عزت و عصمت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اگر ہم نگاہیں اٹھاکر سرمایہ دارای نظام کے یہ ظالمانہ مناظر دیکھنا چاہیں تو سیمانچل ہمیں دعوت نظارہ دے رہا ہے۔ یہاں کے مالدار لوگ حاکمانہ اور نادار لوگ محکومانہ ذہن میں دبے ہوۓ ہیں۔ طاقتور طبقہ اپنے مالی، اقتصادی اور سماجی اقتدار کی بنیاد پر اپنے بچوں، اہل خانہ، اور قریبی رشتہ داروں کو ہر شعبے میں آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کے بر عکس، فلاکت زدہ اور غریب طبقے کے بچے، جو علم و ہنر میں باکمال ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے بوجھ تلے دب کر آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اور اپنے حق سے محروم کر دۓ جاتے ہیں۔ سیمانچل کی پسماندگی میں بہت سے عوامل پہلے سے ہی کارفرما ہیں طرفہ سرمایہ دارای کی ذہنیت مزید قہر ڈھا رہی ہے۔ اس کے سدباب کے لیے مہم جوئی نہایت ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کا سدباب کیسے کیا جائے؟ اس کے لۓ کچھ معروضات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
١- ہمیں دینی تعلیم کو بہت حد تک عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور مزید کوشش کرکے سرمایہ داراوں کے بچوں میں ہم کچھ عالم دین بنانے میں کامیاب ہوئے تو اس مہم میں کافی حد تک مدد ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ بھی مشاہدہ رہا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اپنی حاکمانہ نشے میں اتنے سرشار رہتے ہیں کہ مذہبی معاملات میں بھی وہی رویہ اپناتے ہیں جو دنیا حاصل کرنے کے لئے رات دن ان کا شیوہ ہے، جیسے شہر کا قاضی انہیں کا کوئی اپنا ہی بنے گا، مسجد کا امام بھی انہیں کے قرابت داروں میں سے کوئی ہوگا، مدارس کے عہدوں پر انہیں کے لوگ ہوں گے۔ تمام اداروں، تنظیموں، تحریکوں کے صدر و سر پرست بالواسطہ یا بلا واسطہ یہی لوگ ہوں گے، نامزد طور پر نہ بھی سہی تو داخلی، خارجی امور میں ان کا عمل دخل کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے۔ بے چارے امام اور مدرس یا ان کے ماتحت کام کرنے والے مولوی ان کے سامنے دو کوڑی کے ہوکر رہ جاتے ہیں، مشق ستم کی نہ جانے کیسی کیسی داستانیں ان پر دہرائی جاتی ہیں۔ سرکاری مدرسوں کو سرکار کی طرف سے مناسب فنڈ مہیّا کرایا جاتا ہے لیکن سرمایہ داروں کی غیر ضروری اثر و رسوخ کی وجہ سے اسکا استعمال دين کے لیے نہیں ہو پاتا ہے بلکہ یہ فنڈ بھی کرپشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ سرکاری مدرسوں میں سرمایہ دار اپنے رسوخ کا استعمال کرکے نا اہلوں کی بحالی کرتے ہیں جس سے مدرسوں کا تعلیمی معیار مسلسل گرتا جا تا ہے اور حرام خوری کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں۔ گویا مذہبی، تعلیمی امور میں بھی اس گندے نظام نے اپنی فضا قائم کرلی ہے۔ اور یہاں بھی حق تلفی کی داستانیں بڑے شوق سے دہرائی جا رہی ہیں۔ یہاں بھی غریب اور باضمیر لوگوں کو کنارہ کش رہنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اہل سرمایہ اور اہل اقتدار کے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور ذہن سازی اس طور پر کی جائے کہ اس نظام کے ان گھنونے کرتوتوں سے متنفر ہونے کے ساتھ ساتھ حق تلفیوں کے خلاف کھڑا بھی ہو سکے۔
٢- اس مہم میں ”تبلیغ“ بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ سرمایہ دار افراد کی ذہن سازی، انہیں دین سے قریب کرکے دینی کاموں کی اہمیت و ضرورت کا احساس دلانا، غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد کے لیے ابھارنا، مزدوروں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے اور انہیں انکے جائز حقوق بہم پہنچانے کی تلقین کرنا، حق تلفی اور دوسرے جرائم سے ہونے والے فسادات کی حساسیت بتانا۔ عموماً شادی بیاہ، جہیز اور دوسرے رسومات میں بے تحاشا مالی اصراف سے نمائش کا جو رواج عام ہے اس میں بھی سرمایہ دارای کی ذہنیت کارفرما ہے، اس کے سنگین اثرات جو معاشرہ پر پڑ رہے ہیں، اس سے انہیں آگاہ کرنا، عدل و انصاف، امن و امان اور صلح و آشتی کی طرف رغبت دلانا، بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے مطلوب خالص دینی نظام کی خوبیوں سے روشناس کرانا یہ کچھ بنیادی اہداف ہیں جو تبلیغ کے ذریعہ مکمل ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی عرض کردینا ضروری ہے کہ اہل سرمایہ اور اہل اقتدار کی ذہن سازی کے لیے ان سے میل جول رکھنا مبلغین کے لیے ضروری ہے، اس کے بغیر ان کی ذہن سازی کے لیے اور کوئی راہ نہیں۔ مگر مشاہدہ رہا ہے کہ بعضے حضرات ان سے میل جول رکھنے میں تملق پسندی اور چاپلوسی جیسے نہایت شنیع اور قبیح جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ بلفظ دیگر سرمایہ دارانہ نظام کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں اور فروغ دیتے ہیں۔ مقصد تو یہ تھا کہ انہیں دین سے قریب کرنا ہے مگر اسے پس پشت ڈال کر اپنے مفاد کے لیے اس گھناؤنے نظام کے دست و بازو بن جاتے ہیں، یہ لوگ بھی قوم، مذہب، ملت اور معاشرے کے صریح مجرم ہیں۔ ایسے علماۓ زر کا سوشلی بائیکاٹ ہونا چاہیے۔
٣- غریب اور نادار طبقہ کو مرعوبیت، قنوطیت اور محکومانہ ذہن سے دور کرکے خود داری، جفاکشی کا مزاج دینا۔ حتی الوسع ان کی امداد کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔
یہ چند باتیں ہم نے پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی معروضات ہو سکتے ہیں۔ تاہم ضروری یہ ہے کہ ہمارے دردمند دعاۃ و مبلغین اور پڑھے، لکھے لوگ اس امر کی جانب توجہ فرمائیں۔ اور اس کے لۓ کوئی عملی اقدام کریں۔