Dynamic Share Icon
ایک جنوبی ایشیائی گاؤں کے کچے راستے پر ایک ننھا لڑکا خوشی سے ہنستا ہوا گرم روٹیاں اٹھائے جا رہا ہے، پس منظر میں ایک چھپر نما ہوٹل اور اس کا مہربان مالک نظر آ رہا ہے۔

روٹی کی تلاش

غریب نواز چشؔتی

ہمارے شہر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک گاؤں بسا ہوا ہے، جو غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔ وہاں کے باشندے اکثر بھوک سے نڈھال رہتے ہیں۔ اسی گاؤں میں ایک چھوٹا سا خستہ حال گھر ہے، جہاں ایک ماں اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ بڑا بیٹا راشد سات سال کا، چھوٹا بیٹا رحمت چار سال کا، اور سب سے چھوٹی، پیاری سی بہن شیرہ صرف تین سال کی تھی۔ ان کے والد کئی سال پہلے ایک حادثے میں انتقال کر گئے تھے، اور ماں الیزہ محنت و مزدوری کرکے کسی طرح گھر کا چولہا جلاتی تھی، مگر اکثر فاقوں کی نوبت آ جاتی۔ دن بدن غربت کی سیاہی میں لپٹے گزر رہے تھے، مگر ایک دن ایسا آیا جب مصیبت اور بڑھ گئی۔ الیزہ شدید بیمار ہو گئی۔ اب نہ وہ محنت کر سکتی تھی اور نہ بچوں کے لیے کچھ کھانے کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ گھر میں آخری نوالہ بھی ختم ہو چکا تھا، اور تینوں بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ راشد نے اپنے ننھے ہاتھوں سے بہن کے آنسو پونچھے اور تسلی دی، "مت روؤ، میں ابھی روٹی لے کر آتا ہوں۔”وہ گھر سے نکلا اور قریبی درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچنے لگا کہ روٹی کہاں سے لائے۔ اچانک، اس کی نظر دور ایک ہوٹل پر پڑی۔ امید کی ایک کرن جاگی، اور وہ تیز قدموں سے وہاں پہنچا۔ ہوٹل کے باہر کچھ روٹی کے ٹکڑے گرے ہوئے تھے۔ راشد نے جھجکتے ہوئے جیسے ہی ان کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، ہوٹل مالک کی سخت آواز گونجی:”ارے او! یہاں کیا کر رہے ہو؟ دفع ہو جاؤ!”راشد خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹا اور تیزی سے وہاں سے نکل آیا۔ وہ سڑک کنارے ایک اور ہوٹل کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے تازہ، گرم روٹیاں رکھی تھیں، اور اس کے معصوم دل میں خواہش جاگی کہ بس ایک روٹی اٹھا کر بھاگ جائے۔ مگر فوراً اس کے ذہن میں آیا کہ چوری کرنا غلط ہے۔ وہ وہیں کھڑا تکتا رہا، بھوک سے نڈھال، مگر اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ نہ کیا۔ہوٹل کا مالک کافی دیر سے اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل میں رحم آیا۔ اس نے نرمی سے راشد کو بلایا اور پوچھا، "بیٹا، تم کب سے یہاں کھڑے ہو، کیا کوئی پریشانی ہے؟” راشد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سسکیاں بھرتے ہوئے بولا، "میرے ابو نہیں رہے، ماں بیمار ہے، اور میرے بھائی بہن بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ میں روٹی کی تلاش میں نکلا تھا، مگر ہر جگہ سے دھتکار دیا گیا۔” ہوٹل مالک نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، "بیٹا، گھبراؤ مت۔ دنیا مشکل ضرور ہے، مگر محنت کرنے والے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے۔ اگر تم چاہو تو میرے ہوٹل میں کام کر سکتے ہو، اور اس کے بدلے میں تمہیں روٹی بھی ملے گی اور کچھ پیسے بھی۔” راشد کی آنکھوں میں امید کے دیے جل اٹھے۔ اس نے فوراً حامی بھر لی اور ہوٹل میں برتن دھونے اور جھاڑو دینے میں لگ گیا۔شام ہوئی تو ہوٹل مالک نے اس کے ہاتھ میں کچھ سکے اور چند روٹیاں رکھ دیں۔ راشد خوشی سے نہال ہو گیا۔ اس کے ننھے قدم تیز ہو گئے۔ وہ راستے بھر یہی سوچتا جا رہا تھا: "اب میرے بھائی بہن بھوکے نہیں سوئیں گے، اور ماں کا علاج بھی ہو جائے گا!” گھر پہنچتے ہی بھائی بہن اس کے ہاتھ میں روٹیاں دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھے۔ راشد نے پہلے انہیں کھلایا، پھر ماں کو اسپتال لے جا کر علاج کروایا۔ اگلے دن وہ پھر ہوٹل چلا گیا، اور یوں اس کی محنت کا سفر جاری رہا۔ایک مہینہ گزرا، اور جب راشد کو اپنی پہلی تنخواہ ملی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ وہ دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور اپنی پہلی کمائی ماں کے ہاتھ پر رکھ دی۔ الیزہ نے بیٹے کو سینے سے لگا لیا، اور آنسو خوشی کے موتیوں کی طرح اس کے رخسار پر گرنے لگے۔اب ان کے گھر میں خوشحالی کے آثار نمودار ہونے لگے تھے۔ غربت کا سایا ابھی مکمل طور پر نہیں ہٹا تھا، مگر راشد کی محنت اور عزم نے ثابت کر دیا تھا کہ حالات جتنے بھی مشکل ہوں، محنت، ایمانداری اور حوصلے سے انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔

 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے