قنوطیت کی ہے ساعت، کوئی امید نہیں
قنوطیت کی ہے ساعت، کوئی امید نہیں
میں تنہا بیٹھا ہوا ہوں اداس جاں کو لیے
نہ چاندنی ہے نہ سایہ نہ روشنی کا سراغ
بکھرچکا ہوں میں شب کی دھواں دھواں کولیے
ہر ایک راہ میں خاموشیاں ہیں سنگ بدوش
نکل چکا ہوں میں سوزِ غمِ رواں کو لیے
نہ کو بہ کو ہے صدا، نہ صدا میں کوئی سخن
بکھر رہا ہوں مسلسل میں امتحاں کو لیے
درونِ ذات کی گلیوں میں جاں لرزتی ہے
کبھی امید کبھی خوفِ ناگہاں کو لیے
خموش لمحوں کی دیوار پر لکھے ہیں سوال
میں کب سے بیٹھا ہوں لب بستہ بےزباں کو لیے
ہر ایک حرف میں رقصاں ہے اک شکست کا داغ
میں بولتا ہوں مگر دل پہ نوحہ خواں کو لیے
دھڑک رہا ہے یہ سینہ مگر سکوت میں ہے
کہ جیسے قید ہوں سانسیں کوئی فغاں کو لیے
نہ خواب آنکھوں میں باقی نہ خواب کی تعبیر
میں جاگتا ہوں فقط دہدۂ تماں کو لیے
اچاٹ سی ہے شبِ غم کی نیند، چین و سکوں
بدن تپش میں شب و روز کی اذاں کو لیے
دعا بھی بجھ گئی امید بھی پگھل سی گئی
گلے لگاۓ ہوں اب خاکِ آستاں کو لیے
یہ زندگی تو فقط سانس کا تسلسل ہے
کوئی نہیں ہے یہاں میری داستاں کو لیے
صدا بھی دیتا ہوں، آواز ڈوب جاتی ہے
میں کھو گیا ہوں کہیں اپنی رائیگاں کو لیے
کوئی نہ دیکھ سکا زخم کی تپش میری
کسےخبرکہ میں چشؔتی ہوں خوں فشاں کولیے