Dynamic Share Icon
اسلامی ماحول میں ایک صاحبِ قلم اپنے مطالعے اور تحریر میں مصروف ہو، گرد و پیش میں علم و حکمت کا ماحول ہو، اور سکون و روحانیت کا احساس جھلکتا ہو۔

قلمکار کی ذمہ داری قلم کا صحیح استعمال

از غریب نواز چشؔتی

قلم ایک نہایت مقدس امانت ہے، جو اپنی اصل تاثیر کو صرف اس کے ذمہ دارانہ اور صحیح استعمال سے برقرار رکھتا ہے۔ جب یہ بے جا یا غیر محتاط طریقے سے استعمال ہوتا ہے، تو نہ صرف اس کی قوت زائل ہو جاتی ہے، بلکہ اس کی عظمت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ ایک صاحبِ قلم کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ کی صداقت پر پختہ یقین رکھے، تاکہ تحریر میں کسی قسم کی جھوٹ، دھوکہ دہی، یا تذبذب کا شائبہ نہ ہو۔ قرآن اور احادیث میں بھی ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ زبان کو صرف اچھائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَقُل لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ” (بنی اسرائیل 17:53)، یعنی "میرے بندوں سے کہو کہ وہ بہترین بات کہا کریں”۔ یہاں "احسن” یعنی بہترین بات کہنے کی ترغیب دی گئی ہے، جو دلوں میں محبت، امن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرے۔ہر تحریر کا منظر اور پس منظر محض سطحی تجزیے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی گہرائی میں جا کر اس کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا: "إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ” (الرعد 13:3)، یعنی "اس میں یقیناً فہم و تفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں”۔ اسی طرح ایک صاحبِ قلم کو ہمیشہ گہرائی سے سوچنا چاہیے تاکہ وہ اپنے الفاظ کے ذریعے معاشرتی حقیقت کو درست طور پر عکاسی کرے اور اس کی تحریر ذہنوں کو جِلا بخشے، نہ کہ فکری الجھنوں کا سبب بنے۔مشق و تمرین کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر اصل کامیابی اس میں ہے کہ قلم انسانیت کی تذلیل یا دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ "علم دولت سے بہتر ہے، کیونکہ علم آپ کی حفاظت کرتا ہے، مگر دولت کو آپ خود بچاتے ہیں”۔ اس طرح، قلم کا استعمال بھی ایک ایسی دولت ہے جسے صحیح طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ یہ کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔ "مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے”، یہ ایک گہرا پیغامِ عمل ہے جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر غیر موزوں لفظ نہ صرف معاشرتی ہلچل پیدا کرتا ہے بلکہ فرد کی داخلی نفسیات پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔

لہٰذا، قلم کا استعمال صرف ایک فن نہیں، بلکہ ایک سنگین ذمہ داری ہے، جو صاحبِ قلم کی انسانیت کے ساتھ وابستگی اور اس کی اخلاقی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا” (البقرہ 2:83)، یعنی "لوگوں سے اچھی بات کہو”۔ اس آیت میں بھی زبان کے استعمال کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، کہ ہر لفظ میں حسن و خیر کا پہلو ہو تاکہ وہ سماج میں سکون، ہم آہنگی اور محبت کی فضا پیدا کرے۔غیر موزوں الفاظ، چاہے وہ کسی کے خلاف کتنے ہی برحق کیوں نہ ہوں، نہ صرف سماج میں اضطراب پیدا کرتے ہیں بلکہ فرد کی داخلی دنیا میں بھی بغاوت و پریشانی کی لہر دوڑاتے ہیں۔ قلم کا استعمال تب تک مکمل نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ انسانیت کے جذبات کی قدر کرتا ہو، اور اس کا مقصد کشمکش نہیں، بلکہ سکون و ہم آہنگی پیدا کرنا ہو۔ اس لیے ایک صاحبِ قلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر لفظ کو ذمہ داری سے منتخب کرے، تاکہ وہ نہ صرف معاشرتی سطح پر امن کا پیغام پہنچائے، بلکہ فرد کے دل و دماغ میں سکون و تسلی کا دروازہ بھی کھولے۔یہ تمام اصول اور رہنمائی ایک صاحبِ قلم کے لیے ایک سنگین ذمہ داری کی مانند ہیں، جو نہ صرف اس کے تخلیقی عمل کو، بلکہ اس کی اخلاقی حیثیت کو بھی شکل دیتی ہیں۔ قلم کو سچائی، حکمت، اور محبت کا وسیلہ بنانا، ایک صاحبِ قلم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے