Dynamic Share Icon

قلم کی طاقت: لفظوں سے انقلاب تک

انسانی تاریخ میں کچھ طاقتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں، اور ان میں سب سے موثر، پائیدار اور خاموش طاقت "قلم” کی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نہ تلوار کی مانند زخم دیتی ہے، نہ بندوق کی طرح گولی چلاتی ہے، مگر پھر بھی دلوں میں انقلاب برپا کر دیتی ہے۔ قلم کا وار کبھی نظر نہیں آتا، لیکن اس کا اثر نسلوں تک محسوس ہوتا ہے۔

قلم انسانی شعور، فکر اور احساسات کا سب سے مہذب اور موثر اظہار ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس نے جہالت کے اندھیروں میں علم کا چراغ روشن کیا، غلامی کے طوق توڑے، اور بیداری کی نئی راہیں دکھائیں۔ قلم کا سب سے پہلا مظاہرہ ہمیں قرآن کریم کی ابتدائی آیات میں ملتا ہے:
"الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔”
یہی اشارہ کافی ہے کہ اسلام میں علم، تحریر اور قلم کو کیا مقام حاصل ہے۔

دنیا کے بڑے انقلابات، چاہے وہ فکری ہوں، سیاسی یا معاشرتی، ان سب کی بنیاد میں قلم کا کردار نمایاں ملتا ہے۔ فرانس کا انقلاب، روس کی بالشویک تحریک، یا برصغیر میں تحریکِ آزادی — ان سب تحریکوں کو ابتدا میں تحریری بیداری نے ہی جنم دیا۔ علامہ اقبال کے اشعار نے مسلمانوں کے سوئے ہوئے شعور کو جھنجھوڑا، اورمولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں اور تقریروں نے قوم کو بیدار کیا  ا اور ان کے افکار کو نئی زندگی کا تصور فراہم کیا۔

اردو ادب میں قلم نے صرف تخیل کی پرواز نہیں دکھائی بلکہ سماجی ناہمواریوں پر آواز بلند کی۔ سرسید احمد خان نے جب "تہذیب الاخلاق” نکالی، تو اس میں صرف اصلاحی مضامین نہ تھے، بلکہ وہ ایک قوم کو ازسرِنو تعمیر کرنے کا عزم تھا۔ فیض احمد فیض کے اشعار اور فراق گورکھپوری کی نثر نے ظلم کے خلاف احتجاج کی نئی زبان دی۔

قلم وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو چیر کر نکلتی ہے، وہ آواز ہے جو خاموشی میں بھی گونجتی ہے، وہ آگ ہے جو دلوں میں سلگتی ہے اور وہ خوشبو ہے جو زمانوں تک باقی رہتی ہے۔ جب کوئی سچا، مخلص اور دیانت دار فرد قلم اٹھاتا ہے تو وہ صرف الفاظ نہیں لکھتا، وہ معاشرے کا آئینہ دکھاتا ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، اور نئی راہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں اگرچہ ہر فرد کو اظہار کی آزادی حاصل ہے، لیکن قلم کا اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق، اصلاح اور انتشار کے بیچ لکیر کھینچنا، یہی آج کے قلم کار کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم قلم کو فتنہ پھیلانے کا ذریعہ بنائیں گے یا فکری و روحانی روشنی کا مینار۔

قلم کو جب ضمیر کی آواز، سچائی کی روشنی اور علم کی حرارت ملے، تو وہ صرف تحریر نہیں بلکہ ایک تحریک بن جاتی ہے۔ اور یہی تحریک قوموں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لہٰذا اگر ہم واقعی معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، فکری شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں، اور ایک باوقار تہذیب کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں قلم کی طاقت کو پہچاننا، سنوارنا اور بروئے کار لانا ہو گا۔

از: تحمید برکاتی
18/05/2025

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے