Dynamic Share Icon

پیامِ حاضر انعکاسِ اقبال

لپٹا ہوا تھا پیچ و خمِ وقت میں جناب
آیا مگر ہوں لوٹ کے، کچھ دیر ہو گئی
(از چشؔتی)

سیمانچل کی سرزمین بڑی مردم خیز واقع ہوئی ہے، اور شعر و سخن تو یہاں سبزے کی طرح اگتے ہیں مگر وہ زمانہ کے گرد و غبار میں دب کے رہ جاتے ہیں۔ سیمانچل کی بہت سی شخصیتیں منظرِ عام پر نہ آسکیں—کچھ زمانے کی ناقدری کی بھینٹ چڑھ گۓ، اور کچھ نے خود بے نیازی کی قبا اوڑھ لی۔ ہرچند کہ عطار کی خوشبو، عطار کے تعارف کی محتاج نہیں ہوتی، مگر عطار کو عطر کے قرابوں سے دکان تو سجانی پڑتی ہے۔ بوئے عطر جب بازار میں پھیلتی ہے تو اس کی مہک خود اپنا تعارف کراتی ہے:ع

عطر آن است که ببوید
نه آن که عطار بگوید

آمدم بر سر مطلب! جناب شاہی ارریاوی کا تعلق سیمانچل کے سرحدی علاقہ ارریا سے ہے، لیکن ان کی شاعری ان تخلیقات میں شامل نہیں جو مفلوج ہو کر رہ گئی ہوں یا جو زمانے کی گرد میں گمنام ہوگئی ہو۔ بلکہ ان کے کلام نے ایک وسیع حلقے میں مقبولیت حاصل کی ، اور ان کے ادبی انقلابی ہنگامہ خیز اور ولولہ انگیز آواز جا بجا گونج رہی ہے۔

یہ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے، جس کے باعث فائدہ یہ ہوا کہ دور دراز کے اہلِ سخن سے شناسائی ممکن ہوئی، مگر نقصان یہ ہوا کہ کتابوں سے رشتہ کمزور پڑ گیا۔ تاہم، ایسے حالات میں بھی اگر کوئی کتاب سے اپنا تعلق استوار رکھے، تو یہ اس کی علمی جستجو اور فکری پختگی کی دلیل ہوتی ہے۔ میرا وجود بھی قرطاس و قلم سے جڑا ہے، میں اپنے ذوق کے مطابق کتابیں خریدتا ہوں اور ان سے مستفید ہوتا رہتا ہوں۔چند ماہ قبل فیس بک پر ایک کتاب—”پیامِ حاضر”—کا چرچا تھا، اور صاحبِ کتاب کے تذکرے اور تحسین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ میری بھی خواہش ہوئی کہ اس کتاب تک رسائی حاصل کروں، چنانچہ میں نے شاہی صاحب سے رابطہ کیا۔ چند دنوں میں یہ کتاب جامعہ اشرفیہ، مبارکپور کے چہار دیواری کے اندر پہنچ گئی، لیکن شومیٔ قسمت کہ میں تعطیلِ سرما کی وجہ سے بروقت حاضر نہ تھا۔”گویا میں گھر میں ہوں اور مدرسہ میں بہار آئی ہے ” واپسی پر کتاب تو حاصل کر لی، مگر سالانہ امتحان کی تیاری کے سبب اس سے استفادہ نہ کر سکا۔سالانہ امتحان کے بعد تعطیلِ کلاں آئی، تو ارادہ تھا کہ کتاب کا مطالعہ کروں، مگر ہجوم کار نے فرصت نہ دی۔ پھر لکھنؤ بورڈ کا امتحان سر پر آ گیا، اور اس کے فوراً بعد رمضان المبارک کی آمد ہوئی، جس کے سبب میں تراویح کے لیے روانہ ہو گیا۔ پندرہ روزہ تراویح کے بعد جب کچھ وقت میسر آیا، تو "پیامِ حاضر” کو مطالعے کے لیے چنا۔جستہ جستہ اور مکمل انہماک کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کیا، تو برجستہ یہ احساس ہوا کہ جو کچھ سنا تھا، وہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ "پیامِ حاضر” محض شعری مجموعہ نہیں، بلکہ ایک فکری و فنی، لسانی و ادبی، اور سیاسی و انقلابی تحریر ہے۔ اس میں شاہی صاحب خاص طور پر نوجوانانِ ملت کو مخاطب کر رہے ہیں، ان کی عظمتِ رفتہ کو یاد دلا رہے ہیں، اور مستقبل کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاہی کی شاعری میں درد بھی ہے اور دوا بھی، بالکل اسی طرح جیسے ہمیں اقبال کے اشعار میں نظر آتا ہے۔حقیقت تک رسائی تبھی ممکن ہوتی ہے جب آدمی اسے تلاش کرے۔ یہی میرے ساتھ ہوا—جب تک "پیامِ حاضر” کی ورق گردانی نہیں کی تھی، شاہی صاحب کی شاعری محض ایک افسانہ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر جب کتاب پڑھی، تو حقیقت آشکار ہوئی کہ شاہی صاحب کا کلام دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، اور ہر پڑھنے والے کے لیے باعثِ تحریک ہے۔ چند اشعار پیش ہیں، جن سے میرے تأثرات کی صداقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

خودی میں ڈھونڈ اے غافل! محافظ اپنی ملت کا
نہیں آئے گا پھر کوئی صلاح الدین ایوبی

عطا کر پھر جیالوں کو وہی ذوقِ نمو، یارب
دیارِ ہند میں شاہانِ مصر و شام پیدا کر

اگر کچھ نوجواں ملت کے میرے ہم تخیل ہوں
تو اپنی قوم کو ہم پایۂ افلاک کر دوں گا

صفت آزاد خاکی ہوں، رہوں کیونکر میں بندش میں
میں شاہی ہوں، روایاتِ اسیری توڑ جاؤں گا

فلک اک نمونہ ہے مانندِ صید
فلک سے بھی اوپر تری ہو کمند

سلیقہ دے،طریقہ دے،فراست، فہم و دانائی
مقامِ خندق و احزاب میں انداز سلطانی

انھیں بازوے مسلم دے انھیں ذوقِ نمائ دے
کہ تن میں ڈال دے ان کے خدا یا روحِ قرآنی

کیے جا کوششِ پیہم عجب کیا ہے کہ مل جائے
تری تاریک راتوں کو ستاروں کی سی تابانی

میں موت تلک کوششِ پیہم میں رہوں گا
شاید کہ چراغاں ہو مرے سوزِ جگر سے

ایسے ولولہ انگیز اور تحریک آمیز اشعار پڑھنے ہوں، تو "پیامِ حاضر” میں جا بجا موجود ہیں۔ آپ بھی اسے خریدیں اور اپنی مطالعہ کی زینت بنائیں۔

نوٹ: میں جدت طراز شاعر، نازک خیال سخن ور، جناب ابو امامہ شاہیؔ ارریاوی سے پیشگی معذرت خواہ ہوں کہ اپنا تأثر نامہ تاخیر سے ارسال کر رہا ہوں۔ میں ابھی مبتدی ہوں، اس لیے میرے تاثرات بھی اسی نسبت سے ہیں۔ وقت کی تنگ دامانی کے باعث یہ چند سطریں سپرد قرطاس ہوئی—اگر فرصت ملی، تو تفصیلی تبصرہ ضرور پیش کروں گا۔ بہت سی ضروری باتیں ، چند معروضات اور کتاب کی اہمیت پر اظہارِ خیال رہ گیا ہے، جسے ان شاء اللہ آئندہ مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ کتاب اور صاحبِ کتاب کو مقبولیتِ عام و خاص عطا کرے۔

غریب نواز چشؔتی

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے