نکل پڑا ہوں میں تنہا نئے سفر کے لیے

Dynamic Share Icon

نکل پڑا ہوں میں تنہا نئے سفر کے لیے
خودی کو ڈھونڈ رہا ہوں کسی ہنر کےلیے

لبوں پہ حرفِ تمنّا، دلوں میں دردِ نہاں
سفر بھی کتنا ضروری ہے اک اثر کے لیے

ہزار خواب ہیں، تعبیر ان کی کچھ بھی نہیں
کہاں راونہ ہوا ہوں، ہے راہ، کدھر کے لیے

قدم قدم پہ خموشی ہے زادِ راہ مرا
چلا ہوں خود سے نکل کر نئی نظر کے لیے

صدا ہے دور کی،لیکن دلوں سے جڑتی ہے
یہ شوق شوق کہ جاتا ہوں بس خبر کے لیے

سروں پہ دھوپ ہے پر اعتماد باقی ہے
یہ راہ تکتی ہے کب سے کسی شجر کے لیے

مسافرت میں الجھتی ہے سوچ کی گتھی
بساطِ عقل بچھائی ہے راہ گزر کے لیے

خیال و وہم کی وادی عجب تماشا ہے
سراب و ریت میسر ہے اِس نگر کے لیے

نہ کوئی سنگ۔ نہ سایہ۔ نہ ہم سفر کوئی
یہ اضطراب ہی کافی ہے رہ گزر کے لیے

قدم ، خیال ، تمنا ، وجود ، خاموشی
سکوت چھائی ہوئی ہے بس اک سفر کے لیے

لبوں پہ حرفِ ودع،اشک آنکھ میں ہے رواں
عجب جنون ہے طاری نئی عمر کے لیے

ہر ایک زخم میں پوشیدہ ایک سانچہ ہے
رقم طراز ہوں برگِ نشانِ در کے لیے

میں ایک قطرۂ درِّ ثمین ہوں چشؔتی
مجھے تراشو نہیں اب کسی گہر کے لیے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے