نام کتاب | نایاب کستوری |
مترجم | مولانا مبشر چشتی |
زبان | اردو |
فن | فقہ |
مختصر القدوری ا
س کتاب کو دنیائے اسلام کے مدارس میں داخل نصاب ہونے کے باعث اہل علم و فضل نے اپنے قلم کا موضوع بنایا اور ایک ہزار سالہ طویل مدت میں المختصر القدوری کی بیسیوں شروح لکھی گئیں نہ صرف عربی میں بلکہ جہاں بھر کی اکثر زبانوں میں اس کے شروح حواشی اور تراجم ہوئے جن کی تفصیل محال ہے۔ فقہائے براعظم ایشیا نے بھی المختصر القدوری کے فیضان کو آگے بڑھانے کی طرح ڈالی اور شروح و حواشی کے ساتھ ساتھ زبان اُردو میں تراجم بھی گئے۔ چونکہ پاک و ہند کے تمام تر مسلمان فقہ حنفی پر عمل پیرا ہیں اس لئے بھی اس عالی شان کتاب کو محبوبیت کا مقام حاصل ہوا۔ علمائے کرام نے عوامی ضروریات کے پیش نظر اسے اُردو کا لباس پہنایا جبکہ طلبہ دینیہ کے لئے تو ترجمہ اس دور کی ضرورت بن چکا ہے۔ پست ہمت، کاہلی دستی کا شکار محنت سے عاری طلبہ تو ترجمہ کو نعمت غیر مترقبہ تصور کرتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے طلبہ تراجم سے استفادہ کرنے کے باوجود عملی میدان میں نکھے ثابت ہوتے ہیں۔ طلبہ کے لئے تراجم زہر قاتل ہیں۔ جہاں تک ہو سکے ان سے بچنا اور کتب کے متون کو حرز جان بنانا چاہیے۔ باوجود اس کے پھر تراجم کا ظہور آثار قیامت سے کم نہیں ہے۔