نمل ناول کے متعلق مصنفہ کی راۓ
سب تعریف اور سارا شکر اللہ کے لیے ہے۔
شاہ زیب خان قتل کیس اور نیب آفیسر کامران فیصل قتل کیس سے متاثر ہو کر لکھے جانے والا ناول نمل جو تین سال پہلے ایک ایک حرف کاغذ پہ اتارنے سے شروع ہوا تھا، آج ایک مجسم حقیقت بن کے آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ خون اور دل سے جڑے نور اور انہی دونوں سے جڑے گناہوں کی کہانی ہے۔ نمل میں آپ کو مختلف اقسام کے لوگ ایک جگہ جمع نظر آئیں گے اور وہ سب ہماری زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان سب میں برائیاں اور اچھائیاں دونوں موجود ہیں نمل کے اچھے کردار اتنے اچھے نہیں ہیں اور برے مکمل طور پر برے نہیں ہیں ۔ آپ نے ان سرمئی کرداروں کی اچھائیوں کو اپنانا ہے اور ان کی برائیوں سے سبق سیکھنا ہے۔ ان کے دکھوں سے اپنا کتھارس کرنا ہے اور ان کی کامیابیوں سے اپنے لیے راہ متعین کرنی ہے۔ کہانیوں میں دل دکھا دینے والے واقعات کی منظر کشی اس لیے کی جاتی ہے تاکہ زندگی میں آگے بڑھتے قاری کے سینے میں جو دل برف بنتا جارہا ہے اس کو کلہاڑا مار کے توڑا جا سکے۔ وہ ٹوٹے گا تو اندر روشنی اور تپش داخل ہوگی پھر ہی وہ پگھل کے نرم پڑے گا اور جذبوں کو پرانی شدت سے محسوس کرے گا۔ اگر ہم ایسا نہ لکھیں اور ایسا نہ پڑھیں تو دنیا کے دھکے دکھ اور تکالیف ہمیں سرد مہر اور بے حس بناتی چلی جائیں گی۔ نمل کو بھی میں نے اسی لیے لکھا ہے تا کہ آپ اپنے دل کے مرائض کی شفا بھی پہچانیں اور اپنے خون کے رشتوں کے ساتھ واپس بھی جڑ جائیں۔
اس کتاب کو لکھنے کے لیے مجھے بہت سے پیارے لوگوں کا بھر پور ساتھ حاصل رہا۔ میری ڈائجسٹ ایڈیٹر امت الصبور جن کی راہنمائی اور تعاون کے بغیر کوئی بھی قسط مکمل کرنا مشکل تھا۔ امتل نے میری پہلی کہانی قابل اشاعت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دس سال بعد وہ میری تحاریر کو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے دیکھیں گی ۔ آج اس بات کو پورے دس سال ہو چکے ہیں ۔ دسمبر 2006 سے دسمبر 2016 کی یہ بھی مسافت میں کبھی بھی نہ کاٹ سکتی اگر امتل ہر قدم پہ میرے ساتھ نہ ہوتیں ۔ انسان صرف کوشش کر سکتا ہے۔ اس کی تحریر کی خامیوں کا پردہ رکھ کے اسے کامیابی اللہ دیتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ناکامیوں سے سبق سیکھنے اور کامیابیوں پر غرور نہ کرنے کی توفیق دے۔ لیلیٰ خان نمل اس کا بھی ناول ہے۔ وہ نمل کی پہلی قاری پہلی مداح اور پہلی نقاد ہے۔ ہر ماہ سب سے پہلے وہی عمل پڑھتی اوراسے کمپوز کرتی اور اس کے ایک ایک زاویے سے مجھے اس کی خامیاں اور خوبیوں بتاتی ۔ خلوص والے لوگ تو بہت مل جاتے ہیں مگر لیلی جیسا خلوص اور سادگی بہت کم کم ملتی ہے۔ تمہارا شکر یہ لیلی تم نہ ہو تیں تو میں کیا کرتی؟ اور یہی خلوص اور سادگی میری ٹیم کے دوسرے دو موتیوں میں بھی ویسی ہی موجود ہے۔ عاصمہ انجم جو نسل کی کئیر ٹیکر رہی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات اور بڑے سے بڑے کام کے لیے وہ ہر وقت حاظر ہوتیں۔ مجھے علم بھی نہ ہو پاتا اور وہ میرے کندھوں سے نامحسوس انداز میں اتناڈھیر سارا بوجھ اٹھا کے جاتیں۔ آپ کا شکر یہ عاصمہ ! اور پھر ہم سب کی پیاری .. اقرا بنت سلیم نمل کی کتاب کا نائیکل ڈیزائن کرنا ایک طرف .. اقراء کا ساتھ جو اس عرصے میں مجھے حاصل رہا وہ خوش نصیبی ہے میری۔ وہ لیلیٰ اور عاصمہ کے ساتھ مل کے نمل کی ایک ایسی مضبوط ٹیم بنی رہی جس نے مجھے کسی موقعے پر اکیلا نہیں رہنے دیا اس کا احسان میں کبھی نہیں اتار سکتی۔
عائشہ ثاقب اور میرے فیس بک پیچ کے تمام ممبرز کا شکریہ جو مجھے شاعری کے چناؤ میں میری مدد کرتے رہے۔ یہ میرا شعبہ کبھی نہیں رہا تھا مگر آپ سب کی اور بالخصوص عائشہ کے بغیر یہ اتنے اچھے طریقے سے میں شاید کبھی سرانجام نہ دے پاتی۔ ایڈووکیٹ سامعہ اقبال اور ایڈووکیٹ آمنہ آفتاب کا بے حد شکریہ جن کی راہنمائی میرے ساتھ ہر وقت رہی ۔ اور ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ جن کی جاب کی حساسیت کی وجہ سے میں ان کا نام نہیں لکھ سکتی لیکن ان کے بغیر میں نمل شروع بھی نہ کر پاتی شاید ۔ اپنے ناشر محترم گل فراز صاحب ( علم و عرفان پبلشرز ) کی میں بے حد ممنون ہوں جنہوں نے نہ صرف میری اس کتاب کو اشاعت کا شرف بخشا بلکہ ہر مرحلے پہ میری رائے اور پسند ناپسند کو ترجیح دی۔ بہت کم پبلشرز اتنی پروفیشنل سوچ رکھتے ہیں اور میں گل فراز صاحب کی دل سے بہت ممنون ہوں کہ انہوں کسی بھی موقعے پڑ چاہے وہ ٹائکیل کا معاملہ ہو یا کتاب کہ ایک جلد میں لانے کا مسئلہ ہمیشہ میری رائے کا احترام کیا۔
یہاں میں بک پائیریسی کا بھی ذکر کرنا چاہوں گی کہ کس طرح وہ ہمارے ادارے اور رائٹرز کے لیے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے۔ خاص طور پر کراچی اور حیدر آباد کے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ کتاب اپنے مستند یک سیلٹر سے خرید میں اور اس بات کی تصدیق کر لیں کہ کتاب اصل ہو۔
نمرہ احمد