موجودہ سیاست میں مسلمانوں کی حصے داری کیوں ضروری ہے؟
از: تحمید برکاتی
ہندوستان ایک کثیر الثقافتی، کثیر المذاہب اور کثیر القومی ملک ہے، جس کی بنیاد جمہوریت، سیکولرزم اور مساوات پر رکھی گئی تھی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ہر شہری کو آئینی طور پر برابری کا حق حاصل ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا زبان سے ہو۔ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد ایک بڑی اقلیت کی ہے، جو کہ تقریباً 20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کا ہندوستان کی تاریخ، تعمیر و ترقی، ادب، ثقافت اور سیاست میں ایک روشن ماضی رہا ہے۔ مگر آج کے دور میں یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ مسلمان ہندوستان کی سیاست میں اپنی بھرپور شراکت داری کیوں حاصل نہیں کر پا رہے؟ اور یہ کہ موجودہ سیاست میں مسلمانوں کی حصے داری کیوں ناگزیر ہے؟
تاریخی تناظر: ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں مسلمانوں نے صفِ اول کا کردار ادا کیا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، سید احمد شہید بریلوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا محمد علی جوہر، خان عبدالغفار خان، مولانا ابوالکلام آزاد، اشفاق اللہ خان، بہادر شاہ ظفر، ٹیپو سلطان اور بے شمار دوسرے مسلم قائدین نے اپنی جانیں قربان کر کے اس ملک کی آزادی کو ممکن بنایا۔ لیکن آزادی کے بعد، مسلمانوں کو ایک مخصوص نظریے کے تحت "مشکوک” بنایا گیا۔ تقسیمِ ہند کا الزام ان پر ڈال کر انہیں قومی دھارے سے کاٹنے کی کوشش کی گئی، اور رفتہ رفتہ سیاست میں ان کا کردار محدود ہوتا چلا گیا۔
موجودہ سیاسی منظرنامہ: گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستانی سیاست میں جو بنیادی تبدیلی آئی ہے، وہ فرقہ پرستی اور ہندو قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر ہے۔ مسلمانوں کو یا تو خاموش تماشائی بنا دیا گیا ہے یا "دشمن” کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی شبیہ کو میڈیا، فلم، اور سیاسی بیانیوں کے ذریعے مسخ کیا گیا، اور نتیجتاً مسلمان نہ صرف سیاسی میدان سے دور ہوئے بلکہ خوف، احساسِ عدم تحفظ اور بے بسی کا شکار بھی ہوئے۔
سیاسی نمائندگی کی کمی: اگر ہم ہندوستانی پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں پر نگاہ ڈالیں، تو مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہے۔ لوک سبھا میں ان کی نمائندگی 5 فیصد سے بھی کم ہے، حالانکہ آبادی میں ان کا تناسب 14 فیصد سے زیادہ ہے۔ کئی ریاستوں میں، جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے (جیسے اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال)، وہاں بھی ان کی سیاسی نمائندگی غیر متناسب اور غیر مؤثر ہے۔
سیاست میں حصے داری کیوں ضروری ہے؟
- 1. حقوق کا تحفظ: سیاست وہ طاقت ہے جو قانون سازی کرتی ہے۔ اگر مسلمان اس طاقت سے دور رہیں گے تو ان کے مسائل کبھی بھی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان کی تعلیم، روزگار، تحفظ اور ترقی جیسے بنیادی مسائل کو صرف وہی مؤثر انداز میں اٹھا سکتا ہے جو ان کے درمیان سے منتخب ہو۔
- 2. نفرت کی سیاست کا مقابلہ: جب مسلمان سیاست سے باہر ہوں گے تو ان کے خلاف منفی بیانیے کو کوئی چیلنج نہیں کرے گا۔ جب ان کی سیاسی شراکت ہوگی تو نہ صرف ان کی آواز بلند ہوگی بلکہ ہندو برادری کے انصاف پسند طبقے کے ساتھ مل کر فرقہ پرستی کے خلاف مضبوط محاذ کھڑا کیا جا سکے گا۔
- 3. قومی دھارے میں شمولیت: سیاست میں حصے داری مسلمانوں کو قومی دھارے میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ وہ نہ صرف اپنے مفادات کی نمائندگی کریں گے بلکہ ملک کی ترقی میں ایک شراکت دار کے طور پر ابھریں گے۔
- نئی نسل کی قیادت کی تربیت: سیاسی بیداری نئی نسل کو قیادت، تنظیم، گفت و شنید اور مسائل کے حل کے فن سکھاتی ہے۔ جب مسلم نوجوان سیاست میں آئیں گے تو ایک تعلیم یافتہ، باشعور اور باکردار قیادت وجود میں آئے گی۔
مسلمانوں کو کیا کرنا ہوگا؟
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے درمیان سیاسی شعور بیدار کرنا اشد ضروری ہے، ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے صحیح قیادت کے لیے استعمال کرنا ناگزیر ہے۔
روایتی پارٹیاں اگر مسائل حل نہیں کرتیں اور مسلمانون کے نظم و نسق کو سنبھال نہیں پاتیں تو اس سے ہٹ کر نئی جماعتیں اور پلیٹ فارم تیار کرنا بےحد ضروری ہے۔
تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور میڈیا میں سرمایہ کاری کرنا بھی بہت ضروری ہے اس لیے کہ سیاسی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان علمی، معاشی اور میڈیا کے میدانوں میں آگے آئیں تاکہ اپنی بات مؤثر انداز میں رکھ سکیں۔دیگر مظلوم طبقات سے اتحاد بھی سیاست میں قدم جمانے کے لیے ایک موثر طریقہ ہو سکتاہے۔ دلت، آدیواسی، پسماندہ طبقات اور انصاف پسند ہندو طبقے کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کریں۔
ہندوستانی جمہوریت کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ ہر طبقے کو اس میں حصہ لینے کا حق حاصل ہو۔ اگر مسلمان خود کو اس عمل سے باہر رکھیں گے تو یہ صرف ان کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی تاریخی ذمہ داری کو محسوس کریں، خاموشی کی چادر کو اتار پھینکیں اور سیاست کے میدان میں بصیرت، حکمت اور عزم کے ساتھ قدم رکھیں۔ یہی ان کے وجود، شناخت اور مستقبل کا تحفظ ہے۔