Dynamic Share Icon
میرا امجد، مجد کا پکا" ایک فکری و ادبی خراجِ عقیدت ہے صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ کی فقہی عظمت، روحانی وراثت اور انقلابی خدمات پر۔

میراامجدمجدکاپکا

جب بہاریں زمین پر رونق افروز ہوتی ہیں، کلیاں مہکتی ہیں، غنچے چٹکتے ہیں، راہیں آراستہ کی جاتی ہیں، اور رنگ و نور کا سماں بندھتا ہے—تو یہ موسمِ عنبر زار درحقیقت کسی ایسی ہستی کی آمد کا استعارہ بن جاتا ہے جو زمانے میں علم، محبت، اخوت اور ہدایت کے قافلے روانہ کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک ہستی صدرالشریعہ، بدرالطریقہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی ہے۔ یہ وہ اسمِ بامسمّٰی ہے جس کی نسبت سے قافلے منزل رساں ہوئے، گمراہ راہ یاب ہوئے، اور آج بھی شرافت، محبت، عقیدت، اور عزیمت کے قافلے ان کی انقیاد میں رواں دواں ہیں۔انہوں نے ایسا علمی نقش ثبت کیا جو آج بھی دانش گاہوں اور دبستانوں کو تابندہ کیے ہوئے ہے، اور شریعت کے بوستان کو عنبر بیز کیے ہوئے ہے۔ علامہ کی ذات وہ کیمیاگر تھی جو خاک کو کندن بنانے کا ہنر رکھتی تھی۔ وہ گرے ہوؤں کو تھامتے، سوتوں کو جگاتے، اور بیدار مغزی کا علمبردار بناتے۔ان کے علم کا کمال و جمال ان کی رفعت و عظمت کا ضامن بن گیا۔ ان کی فنا، دراصل ان کی بقا کا پیش خیمہ بن گئی۔ ان کی کرنِ تجلی وقت کے گرداب سے محفوظ رہی۔ ان کا علم، ان کا فہم، ان کی بصیرت—سب کچھ ایسا تھا جو کسی بھی مجدد اور رہنما کی شان کے عین مطابق تھا۔وہ "معتمدِ رضا” تھے۔ وہ "اعتبارِ مجددِ اعظم” تھے۔ جب سلطانِ بریلی، امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ، نے فرمایا: "میرا امجد مجد کا پکا”—تو پھر ان کی شان کا سورج کبھی گہن آلود نہیں ہو سکتا۔ان کا اقبال و اعزاز وہ دائرہ ہے جس کی وسعتیں آج بھی اہلِ علم و دین پر سایہ فگن ہیں۔ جسے انہوں نے خوانِ فضل پر جگہ دی، وہ آج اقوام کے افق پر درخشاں ہے۔ جسے ان کی چشمِ دلنواز میسّر آئی، وہ آج دلِ بینا عطا کرتا ہے۔ جسے ان کے جامِ علم سے سیراب کیا گیا، وہ آج معرفت کے نشے میں مست ہے۔ جسے وہ عزیز رکھتے تھے، وہ آج اہلِ محبت کے لیے حرزِ جاں ہے۔ اور جسے ان کی قربت نصیب ہوئی، وہ "حافظِ ملت” بن کر عہد ساز بن گیا۔علامہ کا وقار، علمی وقار تھا۔ ان کا جاہ و جلال فقہ و فتاویٰ کے قیل و قال سے معمور تھا۔ وہ لوحِ جہانِ فضل پر ایک ایسا نقشِ کامل بنے، جو وقت کے ساتھ مزید روشن ہوتا چلا گیا۔ان کی زندگی، علم و عمل، سادگی و وقار، اور بصیرت و تدبر کا حسین امتزاج تھی۔ وہ نگارستانِ ادب میں جمالیات کا پیکر تھے، شبستانِ فن میں قندیلِ علم تھے۔ ان کی شخصیت نکہت افروز تھی، نہایت شفاف، نہایت باوقار۔ ان کا ہر زاویہ، زاویۂ قاعدہ تھا۔ ان کا ہر قول اور عمل ایک خطِ مستقیم کی مانند سیدھا، سچا، اور مبنی بر ہدایت تھا۔وہ شامِ مصر میں علم کی سرخی تھے، اور صبحِ شیراز میں فقہ کی تابانی۔ وہ اتحاد کے خوگر، ایثار کے پیکر، کرامت کے مظہر، وجاہت کے علمبردار تھے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، اور ہر عہد میں انقلاب آفریں بن کر سامنے آتی ہیں۔انہوں نے قوم کو بہارِ شریعت دے کر فرضِ کفایہ ادا کیا، اور آج بھی انسان اس کے ذریعے کج روی سے راہِ راست پر آ رہے ہیں۔ بہارِ شریعت ایک کتاب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔

صدرالشریعہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے، ایک مکتبِ فکر کا عنوان ہے، ایک فقہی، علمی، اور روحانی تسلسل کا روشن ستارہ ہے۔ ان کی روشنی عہد بہ عہد بڑھتی جائے گی، ان کی یاد فکر و عمل کے قافلوں میں زندہ رہے گی، اور ان کا فیضان اہلِ سنّت و جماعت کی پیشانی کا نور بنا رہے گا۔میرا امجد، مجد کا پکا”—یہ جملہ ایک نسبت نہیں، بلکہ ایک صدی کی سند ہے۔

از غریب نواز چشؔتی

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے