Dynamic Share Icon
ماہ رمضان المبارک اور محصل" ایک بصیرت افروز تحریر ہے جو چندہ جمع کرنے کے طریقوں اور دین دار طبقے کی عزت و وقار کے تحفظ پر زور دیتی ہے۔

ماہ رمضان المبارک اور محصل

راقم الحروف: فیروز رضا سعیدی
تاریخ ۷مارچ ۲۰۲۴ بروز جمعرات

رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کی آمد آمد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر اپنے بندوں کی ہر جائز خواہش پوری فرماتا ہے۔ لیکن اسی پاک مہینے میں دین سے محبت رکھنے والے بعض علما ، حفاظ مدرسے کی رسید لے کر اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں ۔ اور ہندوستان کے کونے کونے تک پہونچ کر زکوٰۃ، صدقات، عطیات اور فطرات کی شکل میں رقم جمع کرتے ہیں۔ جو ایک نیک کام ہے ۔ اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ یہ رقم اکٹھا نہ کی جائے تو مدارس کا خاصا نقصان ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں جو رقم اکھٹا کی جاتی ہے اسی سے ان دینی مدارس کا وجود باقی ہے۔ مجھے جو بات ناگوار گزرتی ہے وہ یہ ہے کہ چند محصل حضرات ایسے ہوتے ہیں جو چندے کی رقم کی خاطر اپنی عزت کا کچومر بنا دیتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو حقیر، فقیر ، یتیم و نادار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو ایک غیرت مند انسان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا،
میں اپنا ذاتی مشاہدہ پیش کرتا ہوں، میں نے کئی بار دیکھا ہے محصل حضرات مسجدوں میں چندے کا اعلان کر کے فرض کی ادائیگی کے بعد مسجد کے دروازے پر بوری یا رومال بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جہاں پہلے سے بے نمازی فقیر فقراء بھی لوگوں کے آنے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی لوگ نماز سے فارغ ہوکر دروازے تک پہونچتے ہیں یہ لوگ شور و غل مچانا شروع دیتے ہیں۔ نمازیوں میں سکتہ طاری ہو جاتا ہے کہ آخر رقم دینا کسے ہے۔ پھر بھی جیب سے دو چار روپے نکال کر سب کے ہاتھ میں تھما کر چلے جاتے ہیں۔ بیچارے علما، حفاظ جو دس سال کی کڑی محنت و مشقت کے بعد عالم و حافظ بنتے ہیں۔ ان کی محنت و مشقت دو منٹ میں دو چار روپے میں بک جاتی ہے۔

خدارا آپ دین کے رہبر ہیں، آپ دین کی آن ، بان، شان ہیں۔ آپ ہی سے دین فروغ پاتا ہے۔ آپ ہی ہیں جو عوام کو دین سکھاتے ہیں۔ آپ ہی ہیں جو دین کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں ۔ آپ ہی جو دین کی صحیح سمجھ رکھتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ لوگوں کے سامنے اپنا تشخص برقرار رکھیں، اتنا نہ گر جائیں کہ لوگ آپ سے نفرت کرنے لگے، بعض محصل حضرات تو ایسے گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں۔ جہاں نمازی اپنی چپل جوتا اتارتے ہیں وہی پر جم کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پوچھے جانے پر جواب ملتا ہے کہ لوگ بعد نماز پہلے اپنی پچل کے پاس ہی آتے ہیں اس لیے یہاں بیٹھ جاتا ہوں تاکہ لوگوں کی توجہ مجھ پر بنی رہے

معذرت کے ساتھ تمام محصل حضرات کو مشورہ دینا چاہوں گا :_
جب بھی آپ کسی مسجد میں چندے کے سلسلے میں جائیں وہاں آپ کسی اونچے مقام پر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ کا مقام اونچا ہے۔ چندہ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن گھٹیا طریقے سے چندہ کرنا بری بات ہے ۔ اور لوگوں سے زبردستی رقم وصول نہ کریں کہ وہ بیزار ہو کر آئندہ آپ سے کوئی رابطہ رکھنا بھی گوارا نہ کرے ۔
نماز مکمل پڑھا کریں بعض محصل حضرات فرض کی ادائیگی کے بعد جیسے ہی چندہ اکٹھا ہوجاتا ہے باقی نمازیں ترک کر دیتے ہیں۔
روزہ بھی رکھا کریں بہانہ نہ بنائیں کہ دن بھر ادھر ادھر پھرنے کی وجہ سے تھک جاتا ہوں۔ اس لیے روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے یہ سراسر غلط بات ہے۔

اہم مشورہ آپ جس مدرسے کا چندہ کرتے ہیں پہلے وہاں جاکر معائنہ کریں کہ وہاں بچوں کی تعداد کیا ہے۔ ان میں کتنے بچے یتیم ہیں کتنے نادار ہیں۔ کتنے مفلس ہیں۔۔ آپ اعلان کے دوران تمام بچوں کو یتیم بنا دیتے ہیں جو کہ ایک جھوٹ ہے ۔ اور رمضان کے پاک مہینے میں جھوٹ کی سزا آپ بخوبی جانتے ہیں۔

آپ قابلِ مبارک باد ہیں جو دین کی خاطر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اللہ اس کا اجر دونوں جہاں میں عطاء فرمائے آمین ثم آمین

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے