لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا

Dynamic Share Icon

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا

جان دے دو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا

شاد ہے فردوس یعنی ایک دن
قسمتِ خدام ہو ہی جائے گا

یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں
نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا

بے نشانوں کا نشاں مِٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر
دل میں پیدالام ہو ہی جائے گا

ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز
چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا

سائلو! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا

یاد ابرو کر کے تڑپو بلبلو!
ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا

مفلِسو! اُن کی گلی میں جا پڑو
باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

گر یونہی رحمت کی تاویلیں رہیں
مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا

بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو
شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا

غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں
جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا

مِٹ! کہ گر یونہی رہا قرضِ حیات
جان کا نیلام ہو ہی جائے گا

عاقلو! ان کی نظر سیدھی رہے
بَوروں کا بھی کام ہو ہی جائے گا

اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر
بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا

اے رضاؔ ہر کام کا اِک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے