کتاب البیوع ماخوذ از صحیح بخاری
دین اسلام میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے یہ دین کامل ہے اور دیگر ادیان پر اسے فوقیت حاصل ہے، چنانچہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے متعلق پوری پوری ہدایات ہیں تو دوسری طرف اخلاق وکردار، عادات و اطوار اور مالی معاملات کے بارے میں مفصل احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کے لیے مال کو ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے لیکن جہاں یہ مال زندگی کا سہارا اور ذریعہ ہے وہاں یہ زندگی میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی ہے ۔ اگر مال کا حصول، استعمال اور اسے خرچ کرنے میں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ مال پر امن بقائے باہمی کی ضمانت دیتا ہے، لیکن اگر مال کمانے یا خرچ کرنے میں اسلامی ہدایات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہی دولت انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے اندر حرص، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ چنانچہ آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں غالباً رسول اللہ سی اے ای ایم نے ایسے حالات کے متعلق ہی پیشین گوئی فرمائی تھی ۔ لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پروا نہیں کرے گا۔ (بخاری، البيوع: ٢٠٥٩)
حصول مال کے کئی ایک ذرائع ہیں، جن میں ایک تجارت بھی ہے۔ دور حاضر میں وہی قومیں ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہیں جو میدان تجارت میں آگے ہوں، اگرچہ عروج و ترقی کا یہ معیار سراسر غلط ہے ، تاہم اس میدان میں آگے بڑھنا ہماری شریعت میں قطعا نا پسندیدہ نہیں۔ بلکہ ہم مسلمانوں کو اس میدان میں دیگر اقوام کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کسی مقام پر بھی شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ لینے کی ہم نے امانت دار تاجر کی بایں الفاظ تعریف کی ہے: امانت دار، سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام ، صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی، البيوع: ۱۲۰۹)
تجارت ، خرید و فروخت اور باہمی لین دین کے شرعی اصول کیا ہیں؟ وہ کونسی تعلیمات ہیں جنہیں اختیار کر کے ہمارا کمایا ہوا مال ہمارے لیے حلال اور جائز ہوگا؟ مال کمانے اور خرچ کر نے کے کون کون سےاصولوں کی پاسداری ضروری ہے، تا کہ حرام اور اس کی نحوست سے بچا جا سکے ۔ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو بالخصوص تاجر کو ان کا علم ہونا چاہیے۔ چنانچہ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ہمارے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
”ہمارے بازاروں میں وہی انسان خرید و فروخت کرے جسے دین کی سمجھ حاصل ہو۔“ (ترمذی، الوتر : ٤٨٧)
تجارت کی مشروعیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ (البقرة: ۲۷۵) رسول الله ﷺ نے رائج الوقت نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی حدود کا تعین
فرمایا اور مندرجہ ذیل بنیادی اصول بیان فرمائے: ا۔ تجارت کی بنیاد باہمی رضا مندی پر ہے، اگر کسی بھی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو ایسی تجارت جائز نہیں ہوگی۔
۲ خرید ار اور فروخت کنندہ، مال لینے دینے میں آزاد، اس کے ہر پہلو پر مطلع اور معاہدہ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوں بصورت دیگر عمل تجارت درست نہیں ہوگا۔ ۔ اگر فریقین میں سے کسی نے دوسرے کو بے خبر رکھا، دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو ایسی پینا جائز نہیں ہوگی۔
۴ مال تجارت حلال کسی نہ کسی طرح فائدہ مند اور ہر قسم کے خفیہ عیوب سے پاک ہو ، اگر مال تجارت حرام، غیر مفید یا عیب دار ہوتو اس کی تجارت نا جائز ہوگی۔ و کا حتی -۵- اگر خرید و فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسی مجلس میں کسی ایک فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ اس خرید و فروخت سے دیکھے بنا چاہتا ہے تو اسے پیچھے بنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ معاہدہ تجارت میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہوں یا کسی فریق کو
ناروا پابندیوں میں جکڑ تی ہوں۔ ے۔ اگر باہمی خرید و فروخت میں کسی بھی پہلو سے سودی معاملات داخل ہو جائیں تو ایسی تجارت کو کسی بھی
صورت میں جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ دین اسلام میں تجارت کی درج ذیل صورتیں منع ہیں: ا۔ گاہک کو دھوکا دینے کے لیے بڑھ چڑھ کر بولی لگانا، جبکہ خریدنے کی نیت نہ ہو۔ ۲۔ مسلمان کے سودے پر سودا کرنا اور اس کی بیع پر بیع کرنا حرام ہے۔ غیر موجود چیزوں کی تجارت نیز حرام اور نا پاک اشیاء کی خرید وفروخت درست نہیں۔تجارتی قافلوں کو منڈی میں آنے سے پہلے جا ملنے اور ان سے سامان خریدنے کی شرعاً اجازت
نہیں ہے۔ ۔ پھلوں اور اناج کو پکنے سے پہلے ہی درختوں اور کھیت میں فروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔ ان کے علاوہ کاروبار کی اور بہت سی اقسام حرام اور نا جائز ہیں، جنہیں ہماری تجارتی منڈیوں میں برسر عام کیا جاتا ہے، وضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ اس سلسلے میں مستند اسلامی ہدایات و تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے ، کیونکہ ہمارے بہت سے معاملات اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے
وتے ہیں۔ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ کسی بھی صاحب بصیرت سے مخفی نہیں ہے، اسے معتبر ترین اور صحیح ترین کتاب کا درجہ حاصل ہے، یہ کتاب زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل اور احادیث صحیحہ کا قابل اعتماد مجموعہ ہے، اس کتاب کو والد گرامی شیخ الحدیث ابو محمد حافظ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ نے تیرہ سال کی طویل عرق ریز محنت سے اردو ۔ اردو کے قالب میں ڈھالا ، پھر ٹھوس فوائد اور اہم نکات ، احادیث بخاری کی تشریح میں رقم فرمائے ،صحیح بخاری کا وہ حصہ حصہ جو مالی معاملات اور خرید و فروخت کے بارے میں ہے ، وقت کی ضرورت کے پیش نظر اس علمی مجموعے کو آپ کے سامنے لانے پر آمادہ کیا ۔ موضوع کی مناسبت کے پیش نظر کتاب البیوع کے ساتھ ، کتاب السلم کو بھی شامل کر دیا گیا ہے ، بہر حال اس مجموعے کی افادیت کے متعلق قارئین خود فیصلہ کریں گے۔
عطر آن باشد که خود بوید نه که عطار بگوید تاہم انسان ہونے کے ناطے بہت سی غلطیوں اور کوتاہیوں کا امکان موجود ہے، قارئین کرام سے گذارش ہے کہ دوران مطالعہ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی اطلاع ضرور دیں تا کہ آئندہ اس کا ازالہ کر دیا جائے ، اس میں اگر کوئی اچھائی ہے تو محض اللہ کا فضل اور خامی ہمارے خام فکر کا نتیجہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعے کی ترتیب و تدوین اور نشر و اشاعت میں کسی بھی طرح حصہ لینے والوں کو اپنے ہاں اجر جزیل عطا فرمائے۔