جس کی تلاش تھی مجھے، وہ گھر نہیں ملا

Dynamic Share Icon

جس کی تلاش تھی مجھے، وہ گھر نہیں ملا
خواہش تھی دل کو جس کی، اکثر نہیں ملا

لعل و صدف بناتا جسے میں تراش کر
دنیاۓ رنگ و بو میں وہ گوہر نہیں ملا

جس پر یقین تھا مجھے، شاطر نکل گیا
دنیا کے اس ہجوم میں رہبر نہیں ملا

سوچا تھا روشنی کا سفیر و نقیب ہوں
لیکن چراغِ دل کو مقدر نہیں ملا

مجھ کو نشانِ منزلِ سطوت بتا سکے
ایسا کوئی رفیق میسر نہیں ملا

جس کے بغیر زیست تھی بے ربط، بے ثمر
تقدیر کے ورق میں وہ منظر نہیں ملا

عمریں گزار دیں تھیں سمندر کے آس پاس
پھر بھی نصیب کو کوئی گوہر نہیں ملا

میں نے ہر ایک چہرے کو پرکھا تھا نور میں
اندر سے کوئی شخص بھی بہتر نہیں ملا

جن کی زباں صداقت و حق کے امین تھیں
ان کے لبوں کا سچ بھی مکرّر نہیں ملا

دریا کی وسعتوں میں سفینہ تھا بے خبر
چشؔتی! بھنور سے کھینچے وہ لنگر نہیں ملا

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے