جب سے نبی کی سیرت اقدس پہ چل پڑے

Dynamic Share Icon

جب سے نبی کی سیرت اقدس پہ چل پڑے
دل سے ہوس زمانے کے سارے نکل پڑے

پیاسوں نے میرے آقا سے کی تھیں شکایتیں
پھر انگلیوں سے شاہ کی چشمے اُبل پڑے

مجھ کو عطا ہو اتنی سی توفیق یا خدا
میرا بھی دل حضور کی الفت میں جل پڑے

شرما گئے فلک کے یہ ماہ و نجوم سب
” جب تاب و تب سے ماہِ مدینہ نکل پڑے "

اے کاش ہو حضوری دیار حضور میں
دکھتے ہی شہر طیبہ مرا دل مچل پڑے

کہتے ہو کیسے اپنی طرح اے وہابیو
میرے نبی کے حکم سے پتھر پگھل پڑے

عنبؔر درود پاک سے دل کر لو اپنا صاف
رب کے حضور تم کو نہ شرمانا کل پڑے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے