عشق نبی کے جام کا تمغہ لیے ہوئے

Dynamic Share Icon

عشق نبی کے جام کا تمغہ لئے ہوئے
میں چل رہا ہوں امن کا دریا لئے ہوئے

مجھ بے نوا پہ چشم عنایت ہو یانبی
در در بھٹک رہا ہوں میں صدمہ لئے ہوئے

مولائے کائنات سے رکھتا ہے جو بھی بغض
پھیلاتا ہے نفاق وہ فتنہ لئے ہوئے

گر دیکھنا ہو فیض رضا کی ضیا تجھے
تو چل بریلی عشق کا نغمہ لئے ہوئے

گر دیکھنا ہے دیکھو بزرگوں کے در پہ تم
"ثروت کھڑی ہے ہاتھ میں کاسہ لیے ہوئے”

عنبؔر کہاں ہے اب کوئی ہمدرد دہر میں
ہر اک کھڑا ہے غم کا جنازہ لئے ہوئے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

One Comment