ابن الوقت کے بارے میں مصنف کا تأثر
آج کل سا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے وقت میں انگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں کہ ریل میں یہ ضرورت کوئی بھلا مانس چوٹ پیتا تو جان پہچان والوں سے چراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بندوبست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا۔ ہندوستانی جوتی اس رگڑ میں کیا ٹھرتی ناچار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے۔ اگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میں سے کبھی کے پڑے ہوئے پھٹے پرانے لتھڑے ڈھونڈ کر ہلگا لیتے۔ تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔ دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں پر تھا۔ ملکی لاٹ آئے اور تمام درسگاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ قدردانی ہو تو ایسی ہو کہ جس جماعت میں جاتے مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوبا کرہا بادل ناخواسته آدها مصافحہ کیا تو سہی مگر اس کو عضو نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منہ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ انگریزی صابون سے نہیں بلکہ مٹی سے رگڑ رگڑ کر اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔
ابن الوقت جیسے ملامتی نہیں تو اس کے ہم خیال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا انگریزی پڑھ رہے تھے۔ ان لڑکوں میں سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آنکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوا ڈالتے۔ ہر چند تعصبات لغو کی کوئی حد نہ تھی، بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسی ان دنوں مطمئن تھی، آئندہ تا بقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار به منزله مهربان باپ کے تھی اور بھولی بھائی رعیت بجائے معصوم بچوں کے۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے ساتھ ایسا نا سزاوار ہوا جیسا آدم اور اس کی نسل کے حق میں گیہوں کا کھا بینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی زبان انگریزی و ضع کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو مگر دیکھتے تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔