حضور دل ہے پریشان عقل فرسودہ

Dynamic Share Icon

حضور دل ہے پریشان عقل فرسودہ
کرم حضور کہ آیا ہے وقتِ رنجیدہ

چراغ بجھتے گئے، حرفِ شوق افسردہ
نَفَس بھی چپ ہے، تمنّا بھی سخت آزردہ

حضور دیدۂ گریاں میں عکسِ کعبہ ہے
حضور سجدہ ہے ہر اشکِ آہِ در چیدہ

حضور وقت کے آزار سے پریشاں ہوں
حضور نظر ِعنایت کہ دل ہے ژولیدہ

حضور شوق میں لرزاں ہے دل کا ہرگوشہ
حضور رات کے پردے میں ہوں میں لرزیدہ

حضور کعبۂ معنی کا آپ قبلہ ہیں
حضور آپ سےکیا کچھ بھلا ہو پوشیدہ

حضور زخم میں ڈوبا ہوا ہے حرفِ صدا
حضور ہجر کا موسم ہے دل ہے خشکیدہ

حضور خاک بھی در پر ہے لالہ و گوہر
حضور ناز ہے ذرے کو بھی کہ بوئیدہ

حضور وقت کا منظر ہے تار و تاریکی
حضور کشتیِ امید بھی ہے نم دیدہ

حضور حسن کا مفہوم آپ سے روشن
حضور آپ کی یادوں سے دل ہے رخشندہ

حضور مرقدِ الفاظ ہو چکا ویراں
حضور فکر کی گلیاں ہیں تنگ و پیچیدہ

حضور کعبہ و قبلہ کا سر ہے خم اب تک
حضور آپ کی نسبت کا جام نوشیدہ

حضور سجدۂ فکر و سخن بھی جھکنے لگے
جبینِ حرف ہوئی نعت میں فرو چیدہ

حضور آپ کی نسبت ہے برگ و باد میں بھی
نسیمِ صبح و مسا آپ کے ہیں گرویدہ

نہ کوئی راہ، نہ سایہ، نہ حارسِ منزل
بہت ہے درد، زمانہ ہے آج پژمردہ

نہ کوئی وحدتِ باطن نہ سوزِ قلبِ دروں
گناہ گار ہیں ہم سب، نگہ ہے شرمندہ

عطا جمالِ درِ یار ہو اگر حاصل
توہوبہار میں شامل یہ قلبِ غلطیدہ

عبور کیسے کروں لڑکھڑاتے قدموں سے
یہ راہِ شوق و جنوں کیوں ہے شاق و پیچیدہ

سمندِ فکر میں بھونچال ہے کشاکش ہے
گلِ وجود کا گلشن ہے آج خندیدہ

یہ ان کی تعریف و توصیف کا رہینِ کرم
کہ لفظ لفظ ہوا مدحتِ شمارندہ

یہ کیسی موج ہے کیسا ہےخوں چکا منظر
کہ رنگِ زخمِ دروں چارو سمت پاشیدہ

حضور چشتیِ خستہ جگر پہ ابرِ کرم
کہ آپ بزمِ کرم کے سخی و بخشیده

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے