تاریخ کا تعارف
تاریخ کا عمومی مفہوم
تاریخ کا لفظ عمومی فہم میں تین مختلف مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے:
ماضی کے اظہار کے لیے
کسی واقعے کے بیان کے لیے
یا ایک متحرک عمل کے طور پر
ان تمام استعمالات کے پس منظر میں دراصل ایک ہی جامع تصور پوشیدہ ہے۔ یہ تصور ایک ایسا وسیع اور گہرا علم ہے جس کے اندر بے شمار فکری زاویے اور نظریاتی جہتیں شامل ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس اکائی کے مطالعے سے قارئین کے ذہن میں اس علم کے بنیادی خد و خال واضح ہو سکیں۔
چونکہ تاریخ ایک ایسا علم ہے جس کے کئی پہلو ہیں، اس لیے مختلف افراد اس سے مختلف فوائد اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ کو اس کے انتہائی وسیع مفہوم میں غالباً سب سے پہلے ابن خلدون نے بیان کیا، جب انہوں نے اس علم کو "العمران والاجتماع البشری” قرار دیا۔ یہ کوئی نیا علم نہیں بلکہ انسانی معاشرے کے ارتقاء کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔ تاریخ کو سماجی ساخت کا ادراک حاصل کرنے اور انسانیت کی موجودہ شکل کو جاننے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ ارتقائی مراحل سے حاصل شدہ سماجی شعور ہے۔
تاریخ کے مختلف استعمالات
1. ماضی کے مترادف:
لفظ "تاریخ” کو ماضی کی جگہ بطور متبادل بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اکثر کہتے یا سنتے ہیں کہ:
"یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے”
یعنی یہ واقعہ مکمل ہو چکا ہے اور اب صرف یادداشت میں باقی ہے۔ لیکن محض کسی واقعہ کا ماضی میں ہونا اس کی تاریخی حیثیت کو ثابت نہیں کرتا۔
2. بیان کی بنیاد پر تاریخ:
کسی واقعے کو تاریخ میں شامل کرنے کے لیے اس کا مشاہدہ ضروری ہے۔ اگر کسی ماضی کے واقعے کو کسی نے دیکھا یا اس کا شعور حاصل کیا ہو، تب ہی وہ تاریخ کا حصہ بن سکتا ہے۔ ورنہ وہ محض ایک ایسا واقعہ ہوگا جسے کوئی جانتا ہی نہیں۔ کسی واقعے کا مشاہدہ یا تو براہِ راست کیا جاتا ہے یا پھر اس کی باقیات سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن بغیر کسی بیان یا مشاہدے کے واقعات میں ربط قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مشاہدہ اور اس کا بیان تاریخ کے لیے لازم ہیں۔
3. واقعے کی اہمیت اور ارتقاء:
کسی بات کو "اہم” قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تعلق دیگر امور سے ہو — یعنی وہ کسی دوسرے واقعے پر اثر انداز ہو۔ اگر کوئی عمل بغیر کسی تبدیلی کے جاری رہے، تو اس کی بار بار تفصیل دینا غیر ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی عمل میں ارتقاء یا تبدیلی واقع ہو، تو اس تبدیلی کے ہر مرحلے کی نشان دہی لازم ہو جاتی ہے۔ اس تبدیلی کے تسلسل کو "ارتقاء” کہتے ہیں۔ چنانچہ تاریخ میں جب ماضی کے واقعات میں ارتقائی پہلو پایا جائے، تو وہی واقعات تاریخ کہلاتے ہیں۔
ارتقاء کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی عناصر درکار ہوتے ہیں:
زمان (Time)
مکان (Space)
تاریخی ارتقاء کو ایک عمل سمجھا جا سکتا ہے جو ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر اسے دینی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ آدم علیہ السلام کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے، اور اگر ڈارون سے رجوع کریں تو یہ بندر کی ذہنی ارتقاء سے مربوط ہوتا ہے۔
تاریخ کا عمل ماضی، حال اور مستقبل کی کڑیاں جوڑتا ہے۔ جب ہم لفظ "تاریخ” کو ایک "عمل” کے طور پر دیکھتے ہیں، تو یہ انسانیت کے طویل سفر کی مکمل داستان بن جاتی ہے۔ اسے ہم:
منشائے ایزدی کا ظہور
انسانی کوششوں کا تسلسل
روحانی سفر کا بیان
جسمانی ارتقاء کی تفصیل
یا مادی ترقی کی روداد
سب کچھ کہہ سکتے ہیں — اور ممکن ہے کہ یہ سب مل کر ہی "تاریخی عمل” کہلائیں۔ یہ تمام مباحث فلسفہ تاریخ کے زمرے میں آتے ہیں۔
انسان — فرد، گروہ، قوم، ملک یا نسل — اس عمل کا نہ صرف کردار ہے بلکہ مشاہدہ کرنے والا، اداکار، مصنف اور کبھی کبھار ہدایت کار بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے تاریخ میں معروضیت (Objectivity) اور موضوعیت (Subjectivity) کا ایک پیچیدہ مگر دلکش امتزاج پایا جاتا ہے۔ ہم آگے چل کر اس امتزاج پر مزید تفصیل سے بات کریں گے۔
تاریخ کی تفصیلات کو منتقل کرنے کے لیے انسان کا مشاہدہ اور بیان انتہائی ضروری ہیں۔ اگر کسی واقعے کا شعور یا بیان باقی نہ رہے، تو وہ آنے والی نسلوں کے لیے گمنام ہو جاتا ہے، چاہے اس کا اثر باقی کیوں نہ رہے۔
حکمران اکثر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں محفوظ رہے۔ اسی لیے ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ:
"تاریخ گواہ ہے…”
یہ جملے ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت تحریری یا زبانی طور پر محفوظ ہو گئے ہوں۔
تاریخ کے ماخذات (Sources of History)
تاریخ کے لیے جن ذرائع سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. کتابی ماخذات:
پرائمری (Primary)
سیکنڈری (Secondary)
متون (Texts)
حوالہ جاتی کتب (Reference Books)
2. دستاویزی ماخذات:
رسمی و غیر رسمی سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات
محفوظ شدہ (Archived) یا خفیہ (Classified) ریکارڈز
3. ادب:
تاریخی ادب، رزمیے، کہانیاں، مذہبی متون
4. لوک روایات (Folklore)
5. زبانی تاریخ (Oral History)
6. مادی باقیات:
سکے، کتبے، عمارات، روزمرہ اشیاء
تاریخ کی خصوصیات (Features of History)
تاریخ کا دار و مدار انسانی مشاہدے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اگر کسی واقعے کا مشاہدہ نہ کیا گیا ہو، تو اس کی موجودگی تو قائم رہتی ہے، مگر شعور میں وہ غیر حاضر ہوتا ہے۔ جیسے اگر کوئی مہلک جرثومہ موجود ہو لیکن اس کی موجودگی کا علم نہ ہو، تو اس کے اثرات ضرور ہوتے ہیں، مگر ان پر رد عمل ظاہر نہیں ہوتا۔
اسی طرح، کسی جنگ میں مارے جانے والے شخص کا نام درج نہ ہو، تو اس کی موت کے اثرات سماجی سطح پر نہیں دیکھے جا سکتے، باوجود اس کے کہ وہ شخص اب زندہ نہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر تاریخی واقعے کے دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں:
معروضی اثرات: جو مشاہدے کے بغیر بھی موجود رہتے ہیں
موضوعی اثرات: جو مشاہدہ کرنے والے کے شعور سے جنم لیتے ہیں
یہی اصول تاریخ کے ہر پہلو — ماضی، عمل، بیان — پر لاگو ہوتا ہے۔
مشاہدے اور رائے کے درمیان فاصلہ نہایت کم ہوتا ہے، اکثر دونوں بیک وقت وجود میں آتے ہیں۔ نئی معلومات پرانے خیالات کی توثیق، تصحیح یا تردید کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس تعلق سے تاریخ کا بیانیہ جنم لیتا ہے۔
کوئی بھی واقعہ اپنی معروضی حیثیت میں مستقل ہوتا ہے، مگر جب وہ انسانی شعور میں داخل ہوتا ہے تو اس کی حیثیت موضوعی بھی بن جاتی ہے۔
واقعات کی اہمیت
کسی واقعے کی تاریخی اہمیت کا دار و مدار اس پر ہوتا ہے کہ:
وہ دوسرے واقعات کو کتنا متاثر کرتا ہے
وہ کتنے واقعات سے متاثر ہوتا ہے
اس کا مقام کسی تسلسل میں کیا ہے؟ (آغاز، انتہا یا مرکزی موڑ)
اس کا اثر کتنے متنوع اور کثیر واقعات پر ہےجتنا بڑا کسی واقعے کا دائرہ اثر ہوگا، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت تسلیم کی جائے گی۔