ہجر کی شِعب سے سربستہ گزرتا ہوا میں
ہجر کی شِعب سے سربستہ گزرتا ہوا میں
گرد آلود ہواؤں سے بچاتا ہوا میں
میں ہوں خاموش مری فکر کا عکّاس قلم
وادیِ تار میں اک شمع سا جلتا ہوا میں
لوگ محفل سے بھی بے فیض پلٹ آتے ہیں
اور گھر بیٹھے مزہ فیض کا لیتا ہوا میں
یہ بھی افسانۂ غم ہے کہ قدم اٹھتے ہی
ہر طرف شعلہ فشاں اور پگھلتا ہوا میں
بزمِ توحیدکی محفل جوسجی پاس پڑوس
مۓ عرفان کو ہونٹوں سے لگاتا ہوا میں
روضۂ مرشدِ کامل ہے بہت پاس مرے
روز پلکوں کوبچھاتےہوۓچلتا ہوا میں
دارِ فانی کو وداع کہنے کی ساعت آئی
ہستیِ خاک ہوں پھرخاک میں ملتا ہوا میں
ابھی اک فتح کا دروازہ کُھلا اور مرا
منزلِ اوج کی جانب ابھی بڑھتا ہوا میں
ترے ہی لطف و کرم اور عنایت سےشہا
تیز لہروں کی طرح رُت سا بدلتا ہوا میں
اب تو عادت میں اتر آئی ہے آوازِ سخن
درد کی حد سے شب و روز گزرتا ہوا میں
اورسب غیرکے دروازے پہ دستک ڈالے
درِ والا کی عقیدت میں ہی ڈھلتاہوا میں
جھڑکیاں کھاؤں کہاں اورکہیں جاؤں کیوں؟
تری دہلیز کے ٹکڑوں پہ ہی پلتا ہوا میں
یہ حقیقت ہو کہ تعبیرِ تصور ہی سہی
باغِ فردوس کی وادی میں ٹہلتا ہوا میں
یہاں ہر شخص ضرورت کے مطابق ہے مرا
ہر قدم رکھتے ہوئے خود میں سنبھلتا ہوا میں
یہ وہ دنیا ہے جہاں آس کی قندیل نہیں
چاک دامان سے خود کے ہی لپٹتا ہوا میں
اشک آنکھوں میں لیے خشک سا چہرہ لےکر
درد اور کرب کی گھاٹی سے نکلتا ہوا میں
اب مرا نام مرے کام سے پہچانا گیا
باعثِ کار ہر اک دل میں چمکتا ہوا میں
یہ کتابوں سے محبت کا نتیجہ ہی تو ہے
خشک صحرا میں گل و لالہ سا کھلتا ہوا میں
سایۂ والد ِ ماجد کا مزہ اور مگر
ماں کےآنچل میں سماتےہی مچلتاہوامیں
حرفِ ناگفتہ کو آواز کی نسبت دے کر
خامشی میں بھی کئی راز چھپاتا ہوا میں
دھول کی کوکھ سے آواز نکالوں کیسے؟
حرف کے زخم کو آہستہ دباتا ہوا میں
لب پہ خاموش دعا، آنکھ میں تفسیرِ ہنر
کرب کی خاک سے آئینہ بناتا ہوا میں
نقشِ امکاں کو کوئی اور سمجھتا کیا ہے
خود کو مٹی میں ہر اک روز جماتا ہوا میں
حلقۂ آتشِ ادراک کو چوما جیسے
نورکی راکھ میں پتھرساپگھلاتا ہوا میں
بزمِ آفاق میں چشؔتی کا لکھا شعر و سخن
اہلِ محفل کو مسرت سے سناتا ہوا میں