حضرت ابو علی حسن بصری رضی اللہ عنہ
سید نا حسن بصری نے ایک جلیل القدر تابعی بزرگ ہیں ۔ آپ نے اس دور میں آنکھ کھولی جو خیر القرون قرنی ثم الذین یلونم کا زمانہ برکت نشان تھا ، بہت سے جلیل القدر کبار صحابہ کرام سے شرف ملاقات حاصل تھا ، ایک روایت کے مطابق 130 صحابہ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے ، ان میں سے 70 بدری صحابۂ کرام ہیں ۔ بیت نبوی میں اپنے ابتدائی ایام گزارے اور سر چشمی فیض و حکمت والے گھر سے خوب فیض یابی کی ، امام المحدثین کے لقب سے ملقب ہوۓ ۔ آپ علم شریعت و طریقت دونوں کے جامع تھے ۔
نام اور کنیت :
آپ کا اسم گرامی حسن ، کنیت ابوعلی ، ابوسعید ابو محمد اور ابو نصر تھی ۔ والد کا نام حسب روایت یسار تھا اور وہ حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ والدہ محترمہ کا نام خیرہ تھا اور وہ حضرت ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی کنیز تھیں ۔
ولادت باسعادت:
آپ ان خوش نصیب بچوں میں ہیں جنھیں بیت نبوی میں آنے جانے کی سعادت حاصل تھی ۔ ابھی اوپر گزرا کہ آپ کی والدہ ماجدہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی االہ عنھا کی خادمہ ،، اس وجہ سے آپ کو ام المؤمنین کی تربیت سے حصہ ملا ۔ جب آپ کی والدہ کسی کام میں مصروف ہو جاتیں اور آپ رونے لگتے توام المومنین ام سلمہرضی االہ تعالی عنھا آپ کو چپ کرانے کے لیے اپنے سینے سے لگا لیتیں اور دودھ پلاتیں ، اس لحاظ سے آپ ام المومنین کے رضاعی بیٹے ہوۓ ۔ آپ نے حضرت ام سلمہ کے بابرکت ہاتھوں میں رسول اللہ کے گھر پرورش پائی ، تولوگ اس دور میں کہنے لگے حسن بصری سے علوم و معارف کے جو دریا پھوٹے ہیں وہ درحقیقت اس دودھ کا فیض ہے جو آپ نے ام المومنین سے نوش فرمایا ۔
تعلیم و تعلم :
آپ نے دس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیااور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام سے دینی علوم حاصل کیے ، آپ نے ان کی قربت سے نبی کریم ﷺ کی بالواسطہ صحبت کا فیض حاصل کیا اور انھیں صحابہ کرام حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت انس بن مالک ، حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنھم اجمعین سے فیض پایا اور دین کا ظاہری و باطنی تمام علوم حاصل کیے ۔ ۱۴ ۔ سال کی عمر میں بصرہ گئے اور وہاں کے اہل علم سے قرآن وحدیث کا علم سیکھا ۔
بیعت و خلافت :
حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیت سے شرف یاب ہوۓ اور ان سے خرقہ فقر پایا ، حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نےآپ کو وہ خرقہ خاص مع کلاہ چہارترکی عنایت فرمایا ، جوانہیں حضور سید عالم ﷺ سے ملا تھا اور ظاہری و باطنی علوم عطاکر کے اپنی خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ۔
تجارت اور کسب معاش :
حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ ابتدائی دور میں جواہرات کی تجارت کرتے تھے لیکن پھر دنیا سے بے رغبت ہوکر فکر آخرت میں گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔
خشیت ربانی :
حضرت حسن بصری کے تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ ہمیشہ آپ پرغم کا غلبہ رہتا اور کبھی نہیں ہنستے تھے ، گریہ و زاری میں مصروف رہا کرتے ، آپ کے لبوں کسی نے مسکراہٹ نہیں دیکھی ، آپ ہمیشہ اس طرح ڈرے سہے رہتے گویا آپ کو سزاے موت سنا دی گئی ہو ، کثرت گریہ وزاری کے سبب آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے ۔
علمی مقام :
حضرت امام حسن بصری تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ علم ظاہر و باطن کے علاوہ آپ زہد وریاضت میں بھی کامل تھے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان الحسن جامعا عالما رفيعا فقيها مامونا عابداناکسا كبير العلم فصيحا جميلا وسفيا .
حضرت حسن بصری جامع کمالات عالم تھے ، بلند مرتبہ فقیہ اور مامون ہونے کے ساتھ ساتھ عابد و زاہد ، بڑے عالم دین ، صاحب فصاحت بلاغت اور حسن و جمال کے پیکر تھے ۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ حضرت بصری مشہور عالم تھے ، ان کی جلالت شان پر سب کا اتفاق ہے ۔
مجلس وعظ :
حضرت حسن بصری عوام کو دینی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور انھیں تقوی و پرہیز گاری کا درس دینے کے لیے ہفتے میں ایک دن وعظ فرمایا کرتے تھے ، آپ کی مجلس وعظ نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی جس میں کثیر تعداد میں لوگ شرکت کیا کرتے تھے ، آپ کا وعظ سننے کے لیے اہل علم بھی حاضر ہوا کرتے تھے ، حضرت حبیب عجمی اور رابعہ بصری جیسے لوگ بھی آپ کے وعظ میں شریک ہوتے تھے ۔
کرامات :
ایک قافلے کے ساتھ حضرت حسن بصری حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوۓ ، قافلے والوں کو شدت سے پیاس لگ گئی ، راستے میں ایک کنویں پر نظر پڑی تو دیکھا کہ وہاں رسی ڈول کچھ بھی موجود نہیں ہے جب امام حسن بصری کو حالات کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ جب میں نماز میں مشغول ہو جاؤں تو تم لوگ پانی پی لینا ، چناں چہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوۓ تو اچانک کنویں سے پانی ابل پڑا اور سب لوگوں نے اچھی طرح اپنی پیاس بجھائی ، لیکن ایک شخص نے احتیاطا کچھ پانی ایک کوزے میں رکھ لیا ، اس کی اس حرکت سے کنویں کا جوش ایک دم ختم ہو گیا آپ نے فرمایا کہ تم نے خدا پر اعتماد نہیں کیا یہ اس کا نتیجہ ہے ، پھر جب وہاں سے آگے بڑھے تو راستے سے کچھ کھجوریں اٹھا کر لوگوں کو دیں جن کی گٹھلیاں سونے کی تھیں ، لوگوں نے وہ گٹھلیاں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خریدا اور اس سے صدقہ بھی کیا۔
صبر کی اقسام اور اس کی وضاحت :
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی حضرت حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوا اور صبر کے متعلق سوال کیا ، آپ نے فرمایا : صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو مصیبتوں اور بلاؤں میں ہوتا اور دوسرا جن باتوں کے کرنے سے ہمیں خدا نے منع کیا ہے ان سے باز رہنا ۔ اس پر اعرابی نے کہا : انک زاهد ما رأيت ازهد منك ، یعنی آپ زاہد ہیں ، میں نے آپ سے بڑھ کر کوئی زاہد نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ سے بڑا کوئی صابر دیکھا ۔ آپ نے فرمایا اے اعرابی میرا زہد سب کا سب رغبت ہے اور میرا صبر جزع ۔ اس پر اعرابی نے کہا کہ میرا اعتقاد مذبذب ہو گیا ، آپ اس کی تفسیر بیان کر دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : میرا صبر مصیبتوں کے قبول کرنے میں میرے اس خوف پر دلالت کرتا ہے جو مجھے دوزخ کی آگ سے پیدا ہو رہا ہے اور یہ عین جزع ہے ، یعنی بے قراری ہے اور میراز ہد دنیا میں آخرت کی رغبت کر ناعین رغبت ہے ۔ اور خوشی کی بات تو یہ کہ ہے اپنی غرض نکال دے تاکہ صبر خالص خدا کے لیے ہو ، نہ کہ اپنے بدن کو دوزخ سے بچانے کے لیے اور زہد بھی خالص خدا کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ اپنے آپ کو جنت میں پہنچانے کے لیے اور علامت اخلاص کی درستگی ہے ۔
اقوال زریں :
آپ فرماتے ہیں کہ ” إن صحبة الأشرار ثؤرث سوء الظن بالاختيار “ بروں کی صحبت نیکوں کے ساتھ بدگمانی کا سبب ہوتی ہے ۔
افسوس اے انسان ! کیا تجھ میں خداے تعالی سے جنگ کرنے کی طاقت ہے ؟ کیوں کہ جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہے ، حقیقت میں وہی اللہ تعالی سے جنگ کرتا ہے ۔ بخدا میں نے ستر اصحاب بدر سے ملاقات کی ہے ، ان میں سے اکثر و بیشتر کا لباس اون کا ہو تا تھا ، یعنی وہ دنیا سے بے رغبت تھے اور عیش و نعمت کے حریص نہ تھے ۔
اے ابن آدم ! عمل کر عمل کر ، کیوں عمل ہی تیرا گوشت اور خون ہے ۔ نیز غورکس عمل پر تو اپنے رب سے ملاقات کرے گا ، بلا شبہ اہل تقوی کی چند علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں ، من جملہ ان میں سے پچی بات کرنا ، عہد و پیان کو پورا کرنا ، صلہ رحمی کرنا ، کمزوروں پر رحم کرنا ، حسن اخلاق سے پیش آنا اور کشادہ اخلاق ، اللہ تعالی سے قریب کرنے والے اعمال ہیں ۔
آدمی کی مروت اس کی زبان کی سچائی ہے ، اپنے بھائیوں کے بوجھ کواٹھانا ، اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے بھلائی عام کرنا اور اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے باز رہنا ۔
بندے کو ہر ایک نفقہ کا حساب دینا ہو گا ، سواے اس نفقہ کے جو اس نے اپنے والدین پر خرچ کیا ہے ، یا جوان سے کم مرتبہ لوگ ہیں یاوہ نفقہ جو اس نے اپنے بھائی پر اللہ کی راہ میں خرچ کیا یا اپنے دوست پر اللہ کی اطاعت میں خرچ کیا کیوں کہ مروی ہے کہ اللہ تعالی ایسے شخص سے ان چیزوں کے متعلق حساب کرنے سے حیافرماتا ہے ۔
چار چیزیں جن کے اندر ہوتی ہیں اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل فرماتا ہے اور اس پر اپنی رحمت عام فرما دیتا ہے ۔ یہ وہ ہے جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے ، اپنے غلام کے ساتھ نرم بر تاؤ کرے ، یتیم کی کفالت کرے اور کمزور کی مددکرے ۔
وصال پر ملال :
حضرت محمد بن سیرین جو خواب کی تعبیر بیان کرنے میں مشہور تھے ، ان سے کسی نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک پرندے نے مسجد سے بہتر کنکری کولے لیا ہے تو حضرت ابن سیرین نے فرمایا اگر تیرا خواب سچا ہے تو حضرت حسن بصری کی موت ہے ، کیوں کہ وہی ہمارے درمیان مسجد میں سب سے بہتر ہیں ۔ چند دن نہیں گزرے کہ حضرت حسن بصری کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کا وصال رجب کے شروع میں 110 ھ میں ہوا ۔ وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک کم و بیش 88 برس تھی ۔ شہر بصرہ میں نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں کثیر بندگان خدا نے شرکت کی ۔ (سیر اعلام النبلاء ، کشف امحجوب ، تہذیب الکمال ، تذکرۃ الاولیا ، آداب احسن البصری وزہدہ و مواعظہ و غیر و کتابوں سے مضمون تیار کیا گیا ۔ )