گردوں نشیں نہیں ہے ملت کا یہ جواں
گردوں نشیں نہیں ہے ملت کا یہ جواں
بس اس لیے نہیں ہے یہ قوم جاوداں
اُس قوم کی حکومت کیوں ہو زمین پر
جس قوم کا نشیمن گردوں نہ آسماں
ہندوستاں کے گل کی تو عندلیب ہے
تیرے وجود سے ہے یہ ہند ضوفشاں
یہ خاکِ ہند کیوں کر تجھ پر ہو رشک کن
دامن میں تیرے تارا نا کوئی کہکشاں
آزاد ہے وطن پر ! آزاد ہم کہاں؟
ہم ہیں شکار ان کےہم پرہے بس نشاں
چھبیس جنوری تو دن ہے نظام کا
قائم یہاں ہےکیا کیا؟سب پرہےیہ عیاں
پوچھا کوئی یہاں کی بابت تو میں کہا
ماحول بے اثر ہے موسم بھی ہے خزاں
کل تک تو اس جہاں پر چرچے ترے ہی تھے
لیکن وہ تخت و منصب وہ راج اب کہاں
ملت کی ہے تباہی خستہ جگر ہیں سب
تو بھیج دے کوئی پھر ایوبیِ زماں
اقبال کی سی نظمیں لکھوں زمینِ ہند
زنبیلِ فکرِ چشتی گر ہو فلک نشاں