اعتکاف کا بیان
قرآن کا فرمان عالی شان ہے وعهـدنـا إلـى إبـراهـيـم واسـمـعيـل أن طهرا بيتي للطائفين والعاكفين والركع السجود اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ اسلام کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اعتکاف والوں اور رکوع وسجود والوں کے لئے ۔ ترجمه : کنزالایمان ، پ ا ع ۱۵ ]
اس آیت کریمہ سے ثبوت ملتا ہے کہ یہ بہت پرانی عبادت ہے اور گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں بھی جاری تھی ۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کوحکم ہوا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین ابراہیمی میں اعتکاف تھا اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے جو چالیس دن طور سینا پرگزارے تھے وہ بھی ایک طرح کا اعتکاف تھا ۔ اعتکاف کسے کہتے ہیں اعتکاف کے لغوی معنی ایک جگہ پر اپنے آپ کو پابند روکے رکھنے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں لیکن شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ایک ایسی عبادت ہے جس میں مسلمان مقررہ وقت تک دنیا سے الگ ہو کر یاد الہی کے لئے مسجد میں بیٹھ جاتا ہے اور یہ عبادت عموماً رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کی جاتی ہے اگر چہ ایسی عبادت کے لئے ہر وقت خود کو مسجد میں پابند کیا جاسکتا ہے لیکن عموما رمضان کے آخری عشرے میں کسی مسجد میں گوشہ نشین ہونے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ۔ جو سنت موکد و علی الکفایہ ہے ۔
دو حج دوعمرے کا ثواب
سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ باعث تخلیق کائنات حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کر لیا تو ایسا ہے جیسے حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم کا اعتکاف فرمانا۔ سیدنا حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کے لئے بیٹھتے تھے ۔ سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیاح لامکاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے ۔ جب آپ کا وصال کا سال آیا تو آپ نے میں دن اعتکاف فرمایا ۔ رياض الصالحين
گناہوں سے محفوظ
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے باز رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لئے ۔ ابن ماجه
دس برس کے اعتکاف سے افضل
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ایک مرتبہ مسجد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں معتکف تھے ۔ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا ۔سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ میں تمہیں غمزدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں کیا بات ہے ۔ اس شخص نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے میں بے شک پریشان ہوں کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے اور نبی کریم حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر اقدس کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس قبر والے کی عزت کی قسم میں اس کے حق ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا میں اس سے تیری سفارش کر دوں ۔ اس نے عرض کیا جیسے آپ مناسب سمجھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما یہ سن کر جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لاۓ ۔ اس شخص نے عرض کیا آپ اپنا اعتکاف بھول گئے۔فرمایا بھولا نہیں ہوں بلکہ میں نے اس قبر والے رسول عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا ، اتنا کہتے ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے تو اللہ عز وجل شانہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتا ہے جن کی مسافت آسمان و زمین کے درمیانی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے ۔ ( طبرانی
آخری عشرہ کا اعتکاف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ عز وجل شانہ نے انہیں وفات دی ۔
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر سارا قرآن مجید ہر سال ایک بار پیش کیا جاتا تھا لیکن جس سال حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو وفات دی گئی۔اس سال دو بار پیش کیا گیا اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر سال دن اعتکاف کرتے تھے لیکن وفات کے سال آپ نے میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا ۔ مرأة المناجيح
اپنی نذر پوری کرو
سیدنا حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی ۔رسول عربی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو ۔ سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آقاے نعمت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ایک سال اعتکاف نہ کر سکے جب اگلا سال آیا تو سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ مرأة المناجيح ]
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شب قدر کی تلاش میں اعتکاف فرمایا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول خداحضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا پھر ترکی خیمہ کے اندر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا پھر سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا میں نے اس رات کی تلاش میں پہلا عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا پھر میرے پاس آنے والا آیا اور مجھے بتایا گیا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے تو جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا وہ آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے ۔ مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی میں نے اس رات کو سویرے اپنے کو گیلی مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا لہذا تم اسے( شب قدر) آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو اس حدیث کے راوی سید نا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اس رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور میری آنکھوں نے رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اکیسویں کی صبح کو دیکھا کہ آپ کی پیشانی اقدس پر گیلی مٹی کا اثر تھا ۔ مرأة المناجيح