Dynamic Share Icon
عید کی خوشی اور سیمانچل کے مسلمان" ایک چشم کشا تحریر ہے جو عید کے دن سیمانچل کے مسلمانوں کے غیر اسلامی رجحانات پر فکری سوال اٹھاتی ہے۔

عید کی خوشی اور سیمانچل کے مسلمان

اللہ تعالیٰ نے انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے، انسان کی طبعی تفریح پسندی کے ناطے مخصوص حدودوقیود کے ساتھ اُسے خوشی کے مواقع عنایت کیے گئے ہیں۔ ان حدود وقیود کی پاس داری ہر مسلمان پر لازمی اور ضروری ہے۔ اسلام میں ان خوشی کے مواقع کو ”عید” کا نام دیا جاتا ہے، اور ان کو آداب و شرائط کے ساتھ منانا باعث ِثواب اور مستحسن ہے، لیکن آداب وشرائط کی پامالی سے یہی خوشی روزِ قیامت غم واندوہ کا باعث بنے گی۔

میں فیروز رضا سعیدی:_ اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا معاملہ بیان کر رہا ہوں ، اسے پورے سیمانچل کے غیور عوام تک پہنچانے میں آپ میری مدد کریں ، تاکہ ہم ایک بہت بڑے فتنے سے اپنے سیمانچل کو بچا سکیں :_

نماز عید الفطر ادا کرتے ہی کچھ احباب کے اصرار پر سیر و تفریح کے لیے نکلا تو دیکھا کہ عید جیسے مبارک دن ہمارے سیمانچل کے علاقہ کانکی، کشن گنج ، اتردیناجپور کے بچے، بوڑھے ، جوان مرد عورتیں قطار باندھے کہیں جا رہے ہیں ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں، کچھ دیر تو وہ خاموش رہے، کچھ لب کشائی نہ کی تو میں نے پوچھا کہ کہیں عرس یا جلسہ یا کوئی اسلامی پروگرام ہو رہا ہو، وہیں جا رہے ہوں گے ۔ انہوں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا نہیں نہیں یہ لوگ کوئی دینی مجلس یا پروگرام میں نہیں بلکہ پاس ہی کانکی میں ایک مندر ہے جو نہایت ہی خوبصورت ہے وہیں پر جا رہے ہیں ، اللہ اللہ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ مزید انہوں نے کہا یہ لوگ ہر سال عید دن کے اسی طرح اس مندر میں تفریح کے لیے آتے ہیں، جس میں عورتوں کی کثیر تعداد ہوتی ہے۔ اور یہ لوگ بڑے فخر سے تصاویر ویڈیوز بناکر اپنے چاہنے والوں کو بھیجتے ہیں،
پھر میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ سیمانچل کے علما ، ائمہ، مقررین، شعراء، حفاظ اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہی مندر نظر سے گذری جو حقیقت میں خوبصورت ہے ۔ ہماری سواری اسی مندر کے راستے جا رہی تھی ، مجھے یقین نہیں ہوا کہ یہ مندر ہے کیونکہ میں نے سر پر ٹوپی پہنے علما حضرات کو بھی اندر جاتے دیکھا ، ساتھیوں سے پوچھا واقعی یہ مندر ہے سب نے ایک آواز ہوکر کہا جی ہاں یہی وہ مندر ہے۔ پھر کیا تھا میں نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے دور جانے کا مشورہ دیا اور ہم وہاں سے دوسری جانب نکل پڑے۔ راستے میں مجھے سکون نہیں مل رہا تھا یہ سوچ کر کہ ہمارا معاشرہ کدھر جا رہا ہے، پورے رمضان المبارک میں تیس روزے رکھ کر تراویح پڑھ کر ہم عید کی خوشی مندر میں منا رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، معاشرے کو بگاڑنے میں کس کا ہاتھ ہے، کیونکہ خود علما اس کار بد میں شامل ہیں۔

  کون کرے گا ہماری رکھوالی 
  سب کر رہے ہیں جب بد کاری  

بیشک عید کی خوشی منائیں پر اسلامی حدود میں رہ کر، کیونکہ آپ مسلمان ہیں، آپ کا ہر قول و فعل مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کی طرح ہو، کوئی ایسا کام آپ سے سرزد نہ ہو جائے جس سے آپ اللہ کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں، سیمانچل کے تمام علما، عام و خاص سے میری گذارش ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو اس کار بد سے بچائیں ، ان شاءاللہ چند ہی سالوں میں اس کا خاتمہ ہو جائے گا ورنہ اپنے انجام کے لیے تیار رہیں ۔ جب بیٹیاں مرتد ہوکر گھر سے بھاگ جائیں گی تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

از قلم: فیروز رضا سعیدی کشن گنج بہار / مقیم حال کرناٹک

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے