
دعوت کا زوال
آج کا منظرنامہ بے حدافسوسناک اور روح فرسا ہے۔ پیغام رساں اور تبلیغی کارکن، جو کبھی دلوں کے معمار و مؤسس ہوا کرتے تھے، آج خود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ زبانوں میں نیک اطوار، متانت اور شائستگی کی جگہ تلخی و خشونت در آئی ہے، لہجوں میں تحمل و بردباری کی جگہ تہذیب سوزی اور سوقیانہ پن نے ڈیرے ڈال لیے ہیں، افکار میں وسعت و تنوع کی جگہ فحش گوئی اور رکاکت نے بسیرا کر لیا ہے، اور انداز میں حلم و رافت کے بجائے بازاری پن نے راہ پا لی ہے۔ گویا یہ دستۂ مسافران، جسے اخلاقیات کا علمبردار اور تہذیب و شرافت کا پاسبان ہونا چاہیے تھا، آج اخلاقی اقدار سے بیگانہ اور روحانی روایات سے راندۂ درگاہ ہو چکا ہے۔جبہ و دستار کے حاملین، جنہیں آفاقی بصیرت اور خاکساری کا نمونہ ہونا چاہیے تھا، آج شاہراہِ دعوت سے محروم ہو کر ذاتی انا کے چوراہے پر سرگرداں ہیں۔ ماننے والوں کی حالت اور بھی دردناک اور دلسوز ہے۔ آنکھوں پر شخصیت پرستی کی دبیز پٹی بندھی ہوئی ہے، دلوں پر اندھی عقیدت کی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔ مشتعل جذبات نے عقل کی مشعل بجھا دی ہے۔ ہر گروہ اپنے ممدوح کے دفاع میں مسلک و مشرب کا تماشا بنائے ہوئے ہے۔ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع، تحقیر و تمسخر، اور دشنام و الزام کی بارش ہو رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فکری دیوالیہ پن کا شکار ہو کر تہذیبی اور دینی قدروں کی لاش پر جشن منا رہے ہیں۔ فضا ناسور بن چکی ہے، ہوا میں تعصب کا زہر گھل چکا ہے، دلوں میں عناد کی گھٹن بھری ہوئی ہے، اور دماغوں پر تنگ نظری کا غبار چھایا ہوا ہے۔ایسے پرآشوب ماحول میں اس قوم کو اشد ضرورت ہے: چشمِ بصیرت کی، دلِ بینا کی، گوشِ شنوا کی اور ایک زندہ اقبالی شعور کی؛ وہ شعور جو افراد کو بندگیٔ شخصیت سے نکال کر عظمتِ اصول کی طرف بلاتا ہے؛ وہ شعور جو مسلک پرستی کی تاریکی کو چیر کر آفاقی اخوت اور اعلیٰ اخلاقی قندیل فروزاں کرتا ہے؛ وہ شعور جو جذبات کی بے لگام طغیانی کو روک کر عقل، فہم اور عدل کی متین راہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے خوابِ غفلت کو ترک نہ کیا اور جذبات کی رو میں بہتے چلے گئے، تو یاد رکھو! یہ کارواں بے سمت، یہ نسل بے مقصد، اور یہ دعوت بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔ پھر ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، اور ہماری دینی شناخت محض ایک حسرت ناک افسانہ بن کر رہ جائے گی۔آئیے! اب بھی وقت ہے، چشمِ بصیرت کھولیں، دل کو تعصب سے پاک کریں، اور اقبالؔ کے بیدار شعور سے نئی فکری تعمیر کی بنیاد رکھیں۔
از غریب نواز چشؔتی