دستِ ساقی جامِ الفت اور میں ہوں روبرو
دستِ ساقی جامِ الفت اور میں ہوں روبرو
جمگھٹا ہے میکشوں کا سب ہیں مست و گرمِ جو
واقفِ آدابِ خم خانہ نہیں لیکن مگر
ہاتھ میں کاسہ لیے پھرتا ہوں ہر دم کوبکو
بے پیے ہی لوٹ آتا ہوں درِ میخانہ سے
شوق کیسا ہے مرا اور کیا عجب ہے جستجو
دم بخود ہوکر مری آنکھیں یہ بولیں دفعتاً
پیکرِ ہستی نظر میں ہے کہ عکسِ ہو بہو
اہلِ محفل پر سکوتِ راز کی چھائی فضا
اور اس کی ہر ادا ٹھہری دلیلِ گفتگو
خواب کی دہلیزپربیٹھاہوں میں صدیوں سےیوں
جیسے ساحل پر سفینہ، مثلِ شبنم، بے وضو
وقت کے نیزے پہ ٹانگا جا چکا ہے میرا عکس
زندگی آئینہ خانہ، میں ہوں تصویرِ عدو
میکدہ جانے سے مجھ کو عام شہرت مل گئی
ہر زباں پر نامِ چشتی گونجتا ہے چار سو