در پہ سرکار کے جو ہونٹ سیے جاتے ہیں

Dynamic Share Icon

در پہ سرکار کے جو ہونٹ سیے جاتے ہیں
ایسے عشاق سمجھ دار کہے جاتے ہیں

نار دوزخ سے وہی لوگ بچے جاتے ہیں
جو بھی ناموس رسالت پہ مرے جاتے ہیں

پوچھنا ہے تو یہ پوچھو کسی عاشق سے
” عشق میں دل ہی نہیں سر بھی دیے جاتے ہیں "

اپنی امت پہ کریں چشم کرم شاہ ھدیٰ
ظلم سے روز یہ دوچار ہوئے جاتے ہیں

دل سے سرکار دوعالم پہ جو پڑھتے ہیں درود
ایسے انسان بلا خوف جیے جاتے ہیں

دہر میں ہوں گے پریشان بھلا وہ کیسے
آپ کا نام جو سرکار لیے جاتے ہیں

عیب پوشی مری کیجے اے شفیع محشر
حشر کے روز مرے جرم کھلے جاتے ہیں

ہم کو معلوم نہیں کیسے طلب کی جائے
پھر بھی سرکار کرم ہم پہ کیے جاتے ہیں

نعت لکھنے کا ہنر جب سے ملا ہے ہم کو
تب سے مداح نبی ہم بھی کہے جاتے ہیں

آئے گا شہر مدینہ سے بلاوا اک دن
اسی امید پہ ہر غم کو سہے جاتے ہیں

حشر کے روز دکھائیں گے وہ چہرہ کیسے
چند پیسوں کے لیے جو بھی بکے جاتے ہیں

پہرہ دیتے ہیں جو ناموس رسالت پہ سدا
زندہ دل بس وہی انسان کہے جاتے ہیں

کیا لگا پائے گا قیمت کوئی اس کی عنبؔر
جو بھی بازار محمد میں بکے جاتے ہیں

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے