چراغِ جاں کا نہ باقی ہے دام، ارحمنی

Dynamic Share Icon

چراغِ جاں کا نہ باقی ہے دام، ارحمنی
کرم اے بدرِ منیرِ تمام، ارحمنی

بجھی بجھی سی ہے قندیلِ شب نگاہ ذرا
نہ صبحِ تازہ نمو ہے نہ شام، ارحمنی

کسے ملاہے یہ نیزہ، یہ تیر کس کا ہے
یہ کون، بانٹ رہا ہے سلام، ارحمنی

قفس میں سجدہ گۂ دل، فغاں سے روشن ہے
ہے چشمِ اشک میں بیت الحرام، ارحمنی

سراب ہوگئے خوابوں کے سب جزیرہ نما
زمین دوز ہوۓ طفلِ خام، ارحمنی

صدف صدف میں ہے پوشیدہ نالہ و سسکی
سکوتِ بحر کا ہے التیام، ارحمنی

نظر پہ گرد جمی، دست و پا شکستہ شدہ
ہے آنکھ آنکھ میں سارا کلام، ارحمنی

بکھر چکے ہیں دعا کے گلاب صحرا میں
ہے لب پہ خشک سا کوئی پیام، ارحمنی

یہ پیڑ پیڑ ہے مجروح ، زخم زخم زمیں
کہاں سے آۓ گا رنگِ نعام، ارحمنی

گھٹائیں چینخ اٹھیں، آندھیاں دہاڑ گئیں
کہاں گیا وہ سکونِ دوام، ارحمنی

کیوں ٹوٹتے ہیں ستم کے پہاڑ ہر ساعت
یہ کیسا عدل ہے،کیسا نظام، ارحمنی

جلا کے راکھ کیا حسن و خد و خال سبھی
مگر ہے راکھ میں بھی احتشام، ارحمنی

نظر میں قحطِ بصیرت،زباں پہ بار ابھی
تھما ہوا ہے ہر اک اہتمام، ارحمنی

ہزار زخم ہیں دیوارِ وقت کی چادر
لکھی ہیں خون سے تاریخِ عام، ارحمنی

قلم کے زخم سے لکھی ہے یہ صدا چشؔتی
ہے میرے درد میں سب کا پیام، ارحمنی

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے