رائٹر: مہویش علی
رات کی سیاہی ہر طرف پھیلی ، نیلے آسان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور اس سیاہ تار یک آسمان پر سفید چمکتے جگنو اپنی اپنی جگمگاہٹ کے ساتھ ماحول کو اپنے حصار میں گھیرے ہوئے تھے ۔ جہاں ہر کوئی نرم گرم بستر میں دبکاخواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھاو ہیں ایک دل دہلا دینے والا منظر کراچی کے مشہور سیون اسٹار ہوٹل کے اونر اجمل جتوئی کے گھر کے لاؤنج کا تھا ۔ لاؤنج کے وسط میں رکھی چیئر سے بند ھاوہ خوف دہشت سے پیلا پڑ گیا تھا ۔ اسکی ہر اساں نظر میں سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھر تھر کانپتی اپنی سترہ سالہ بیٹی کی طرف تھی ۔ اسکی بیوی ان دونوں نقاب پوش کے سامنے ہاتھ جوڑ کر روتی معافیاں مانگ رہی تھی ۔ پر ان نقاب پوشوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ، سب سے بڑاخواب آج پایہ تکمیل تک پہنچنے والا تھاوہ کیسے پیچھے ہوتے ؟ !! نا ممکن ہلنا نہیں ورنہ اسکی کھوپڑی اڑادیں گے ۔ ” ایک نقاب پوش کے آگے بڑھنے پر دوسرے نے عورت کو چو کناد یکھ کر ہاتھ ” میں موجود گن اجمل جتوئی کے دماغ پر رکھی ۔ جسکے ہاتھ پاؤں چیئر سے بندھے ہوئے تھے اور منہ پر ٹیپ لگا یا گیا تھا ۔ دوسرا نقاب پوش سامنے دیوار سے لگی کھٹری اس چھوٹی سی لڑکی کی طرف بڑھا جسکی آنکھیں یہ سب دیکھ کر وحشت سے پھیلی ہوئی تھیں ۔ نازک وجو دلرز رہا تھا ۔