فاروق اعظم کا کاروباروذریعۂ معاش


فاروق اعظم تجارت کیا کرتے تھے :


زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ذریعہ معاش کی طرف توجہ فرمائی ۔ پورے عرب میں زیادہ تر معاش کا ذریعہ تجارت تھا ، اس لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی تجارت شروع کر دی اور اس میں آپ نے اتنا نفع کمایا کہ آپ کا شمار مکہ مکرمہ کے اغنیاء یعنی مالداروں میں ہونے لگا ۔ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تجارت کو جاری رکھا یہاں تک کہ آپ خلیفہ بن گئے اور بعد خلافت بھی آپ تجارت کرتے رہے ۔ چنانچہ امام ابراہیم نخعی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ ’
کان عمر يتجر وهو خليفة
یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہونے کے باوجود تجارت کیا کرتے تھے ۔ ‘‘

فاروق اعظم کا کاروباروذریعۂ معاش

گرمیوں میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ بغرض تجارت ملک شام کا رخ فرماتے اور سردیوں میں ملک یمن کو اختیار فرماتے ۔اور غالباً انہیں تجارتی سفروں کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات میں خود داری ، بلند حوصلہ ، تجربہ کاری ، معاملہ بینی ، مردم شناسی فہم وفراسٹ جیسے با کمال اوصاف پیدا ہو گئے تھے ۔


فاروق اعظم کے تجارتی سفر :


آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے تجارتی اسفار کا ذکر معتبر کتب سیر و تاریخ میں بہت ہی کم ملتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ، علامہ بلاذری نے ’ ’ انساب الاشراف ‘ ‘ میں ملک شام کی طرف آپ کے فقط ایک تجارتی قافلے کا ذکر کیا ہے ۔البتہ چند ایک قرائن ایسے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تجارتی حوالے سے ملک شام وعراق وغیرہ کے سفر کیا کرتے تھے ۔ مثلا : یہ بات مسلمہ ہے کہ آپ تجارت کیا کرتے تھے ، اس زمانے میں عموماً تا جر مختلف علاقوں کی طرف تجارتی سفر بھی کیا کرتے تھے لہذا آپ بھی تجارتی سفر کرتے ہوں گے ۔ نیز منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مختلف مفتوحہ علاقوں کے نقشے بناۓ اور ان کے مختلف مقامات کی نشاندہی کی جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ان شہروں سے واقف تھے اس کا ایک سبب ان علاقوں میں تجارتی سفر بھی ہو سکتے ہیں ۔


فاروق اعظم اور کھالوں کا کام  :


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۸۱۸ صفحات پر مشتمل کتاب’’اصلاح اعمال ‘ ‘ ( ۱ ) جلد اول صفحہ ۷۴۸ پر ہے : ” امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کھالوں کا کام کیا کرتے تھے ۔


فاروق اعظم اور زراعت :


بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ زمینیں بھی بٹائی پر دیا کرتے تھے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں سے اس پر مزارعت فرماتے کہ اگر حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی طرف سے نیج لائیں تو ان کے لیے نصف پیداوار ہو گی اور اگر وہ لوگ خود بیج لائیں تو ان کے لیے اتنا ہی ہوگا ۔


کسب کرنا انبیائے کرام کی سنت ہے :


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رزق حلال کمانا انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کی سنت مبارکہ ہے ۔حصول رزق کےلئے کوشش کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرات انبیائے کرام اور رسل عظام علیہم السلام بھی کسب یعنی حصول رزق کے لئے کوشش کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت سیدنا آدم صفی الله على نبيناء عليه الصلوة و السلام گندم بوتے ، اسے سیراب کرتے ، اس کی کٹائی کرتے ، اسے گانہتے ، پھر اسے پیستے ، پھر اس کا آٹا گوندھ کر روٹی تیار فرماتے ۔ یوں آپ کھیتی باڑی کا کام کرتے ۔ حضرت سیدنا نوح نجئ الله على نبينا عليه الصلوة والسلام بڑھئی کا کام کیا کرتے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل الله على نبيناء عليه الصلوۃ والسّلام کپڑے بن کر گزارا کرتے ۔ حضرت سیدنا داؤد علی نبيناء علیہ الصلوۃ والسلام زرہیں بناتے ۔حضرت سیدنا سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے اور ہمارے آقاومولی رسولوں کے سالار ، باذن پروردگار دو عالم کے مالک ومختار ، شہنشاہ ابرار ، مدینے کے تاجدار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اپنی بکریاں چرایا کرتے اور تجارت کیا کرتے تھے اور یہ تمام عالی رتبہ حضرات کسب کر کے ہی کھاتے تھے ۔


خلفائے راشدین کے پیشے :


حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرح خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بھی کسب کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ، امیرالمؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کھالوں کا کام کرتے تھے۔امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تاجر تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ خوردونوش کی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا کر فروخت کرتے اور امیر المؤمنین حضرت سیدناعلی المرتضی کرم الله تعالی وجہ الکریم مزدوری کیا کرتے تھے ۔ ‘‘


نقل: فیضان فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دعوت اسلامی 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے