بکھرا ہوا ماحول ہے اک ٹوٹا ہوا گھر
بکھرا ہوا ماحول ہے اک ٹوٹا ہوا گھر
اترا ہے اسی خاک پہ اک مردِ قلندر
ویران مناظر میں وہ اک شعلۂ تاباں
خاموش فضاؤں میں بجاتا ہے دفِ زر
ویرانیِ کہسار میں بجلی کی طرح ہے
تقدیر کے دفتر میں وہ اک حرفِ مکرّر
صحرا میں بھٹکتے ہوۓ طوفان کا ہمزاد
دریا کے لبوں پر بھی ہے چٹان کا ہمسر
تاریخ کے سینے میں چھپا راز ہے اس کا
تحریر کے لفظوں میں نہیں اس کا سمندر
پتھر کے جبینوں پہ لکھا اس نے محبت
سینوں میں وہی کاشت کرے نورِ سکندر
ہر عہد کی زنجیر کو توڑا ہے مکمل
ہر دور کے ماتھے پہ رہا مثلِ منور
ہنگامۂ ہستی میں وہی رمزِ بقا ہے
موتی ہے،شررہے،وہ شرابِ شبِ محشر
دنیا کے فسانے مجھے بے رنگ لگے ہیں
میں خاک بسر، مست ہوں اپنی ہی نظر پر
تاریخ کے اوراق پہ یہ نظم رقم ہے
چشؔتی نے لکھی نظم یہ گردونِ فلک پر