بستی ناول کی ابتدا
جب دنیا بھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے۔ کتنا حیران ہوتا تھا ارد گرد کو دیکھ کر کہ ہر چیز کتنی نئ تھی اور کتنی قدیم نظرآتی تھی۔ نیل کٹر کھٹ بڑھیا، مور ، فاخته، گلہری ، طوطے جیسے سب اس کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لئے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار لگتا کہ روپ نگہ کے جنگل سے نہیں برندا بن سے آرہی ہے ۔ کھٹ بڑھیا الٹر تے اڑتے اپنے ہی ہاتہ کی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ سبا کے عمل میں خط پھوٹ کے آسامی ہے اور حضرت سلیمان کے قلعے کی طرف جارہی ہے اور حبیب گہری منڈیر پر دوڑتے دوڑتے اچانک دم یہ کھڑی ہو کے چک چک کہتی تو وہ اسے تکنے لگتا اور حیرت سے سوچتا کہ اس کی پیٹھ پر پڑی یہ کالی دھاریاں رام چندر جی کی انگلیوں کے نشان ہیں اور ہا تھی تو حیرت کا ایک جہان تھا۔ اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کہ جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو ہا لکل ایسا لگتا کہ پہاڑ چلا آرہا ہے۔ یہ لبی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھوں کی طرح ہلتے ہوئے انکوانہ کی طرح ختم کھاتے ہوئے دو سفید سفید دانت دو طرف نکلے ہوتے۔ اسے دیکھ کے وہ حیران اندر آتا اور سیدھا بی اماں کے پاس پہنچتا۔