اسیرِ گیسوئے سلطانِ دو جہاں لکھ دوں
اسیرِ گیسوئے سلطانِ دو جہاں لکھ دوں
مہک میں ڈوبی ہوئی صبح کا سماں لکھ دوں
خلا میں گونج رہی ہے صدا درودوں کی
میں ان کے ذکر کو تحریک رازداں لکھ دوں
کہ ان کے نام کی خوشبو سے چاند روشن ہے
میں ان کے نام کو گردونِ کہکشاں لکھ دوں
سمندروں کی روانی میں ان کے نقش ملے
میں ان کے قدموں کو موجوں کا بادباں لکھ دوں
جہاں میں نخلِ محبت وہی تو سایہ ہے
میں ان کی ذات کو رحمت کی سائباں لکھ دوں
ہوا بھی ان کے اشارے پہ راہ دیتی ہے
میں ان کی نعل کو رفتار کا نشاں لکھ دوں
کہیں جو ظلمتِ شب راستہ بھٹک جاۓ
چراغِ طیبہ کی میں روشنی عیاں لکھ دوں
یہ جو بہار کے جھونکے ہیں ان کے دم سے ہیں
میں ان کی زلف کو خوشبو کی داستاں لکھ دوں
مری حیات کو نسبت جو مل گئی ان سے
میں اپنے اشک کو زمزم کا ترجماں لکھ دوں
وہ آ گئے تو مقدر چمک اٹھا میرا
میں ان کے نقش کو تقدیر کی اذاں لکھ دوں
ہزار بار گراؤں قلم مگر چشؔتی
مدیحِ احمدِ مرسل کو ناگہاں لکھ دوں