آخرِ شب میں بھی تنویر عطا ہوتی ہے

Dynamic Share Icon

آخرِ شب میں بھی تنویر عطا ہوتی ہے
قالبِ نعت میں تحریر عطا ہوتی ہے

جب تصور میں ہو گنبد کا وہ سبزینہ جمال
آنکھ کو دید کی تصویر عطا ہوتی ہے

نعت کہنے کی لیاقت ہو نفاست آثار
ورنہ الفاظ کو زنجیر عطا ہوتی ہے

جب مدینے سے کوئی آہٹِ خوشبو آۓ
دل کو تب ساعتِ شب گیر عطا ہوتی ہے

شاخِ امید پہ جب نعت کا گل کھل جاۓ
زندگی کو نئی تعبیر عطا ہوتی ہے

جب ہو تذکارِ شہِ والا تحمل کے تلے
قلب کو حالتِ تسخیر عطا ہوتی ہے

اسمِ احمد میں چھپے رازِ ازل کے جلوے
حرفِ مستور کو تاثیر عطا ہوتی ہے

ذکر قرطاسِ ادب پر جو بکھر جاتا ہے
سطر در سطر کو تطہیر عطا ہوتی ہے

نامِ سرکار اقامت ہو اگر قلب نشیں
زندگی کو نئی تقدیر عطا ہوتی ہے

جب ہواۓ شہِ بطحا سے ٹکڑ جاتے ہیں
خود بخود زخم کو تصغیر عطا ہوتی ہے

سجدۂ شوق ہو نعتوں کی زمیں پر چشؔتی
تب ہی جذبے کو بھی تعبیر عطا ہوتی ہے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے