جز عشق کے کچھ دل میں نہ سامانِ مدینہ

Dynamic Share Icon

جز عشق کے کچھ دل میں نہ سامانِ مدینہ
پھر کیوں نہ ہو ہر سانس میں فیضانِ مدینہ

ہر سمت وہاں نور کی برسات ہے پیہم
خورشید بھی ہے سجدہ گزارانِ مدینہ

ہم جیسے گنہگار، خطا کار، سیہ کار
پھر بھی ہے درِ پاک پہ اذعانِ مدینہ

مرمر کی عمارت سے کہیں خوب ہے وہ دل
جس میں ہو نمو پاتا گلستانِ مدینہ

مٹی ہے درِ پاک کی شاداب و نمو خیز
پھولوں سے کہیں پیاری ہے خارانِ مدینہ

اک نور جو آیا تھا بہ تقدیرِ مقدم
روشن ہے اسی نور سے لمعانِ مدینہ

شب بھر جو برستی ہے دلِ زار پہ رحمت
وہ خواب نہیں، دید ہے، احسانِ مدینہ

دریا بھی ہراک موج میں لیتا ہے تقاضا
لب پر ہے صدا، دل میں ہے طوفانِ مدینہ

یہ خاک ہے یا نور کا سیلاب ہے جاری
پاؤں بھی کریں سجدہ شجر بانِ مدینہ

جب ذکرِ نبیؐ چھڑتا ہے محفل میں کہیں پر
خوشبو سے مہک اٹھتا ہے پیمانِ مدینہ

پتھر بھی وہاں نرم دلی سیکھتے ہوں گے
ہے درسِ وفا خلق گسارانِ مدینہ

زخموں کو شفا ملتی ہے دربارِ نبی پر
رحمت کی جھڑی ہے کہ ہے درمانِ مدینہ

کعبہ بھی جسےبوسہ کرےشوق سےجاکر
وہ خاک ہے، وہ در ہے، وہ دربانِ مدینہ

حیرت سے ستارے بھی تماشا ہیں وہاں کے
ہر شام ہے روشن بہ فروزانِ مدینہ

جب دھوپ میں سایہ کہیں ملتا نہیں چشؔتی
خود سایہ فگن ہوتا ہےدامانِ مدینہ

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے