رقص میں جب کوئی مفہوم مکمل چمکا
رقص میں جب کوئی مفہوم مکمل چمکا
اک سخن برق بنا، دل میں مسلسل چمکا
نور جب لفظ کے پیکر میں مکمل اترا
ایک جلوہ سرِ افکارِ تخیل چمکا
جب کسی لمس نے آیات کو چھو کر دیکھا
دیدۂ دل میں کوئی گوشۂ مشعل چمکا
حرف جب سجدۂ خاموش میں نالیدہ ہوا
تب مناجات کا ہر قطرہ مکمل چمکا
چودھویں چاند کی تابانی مرے ساتھ رہی
خوابِ امید کا جگنو بھی مسلسل چمکا
پھر کوئی یاد شبِ تار سرہانے آئی
پھر سرِ عرش کوئی نور کا بادل چمکا
تیری خاموش نگاہوں سے جو نکلا سورج
شب کے اعصاب میں اک نوحۂ بلبل چمکا
موج تھی نور کی پیکر میں اترتی جاتی
پھر کسی حرف سے سرمد کا تسلسل چمکا
آخری بار بھی دیکھا تو عجب وجد ہوا
روح کے ساز میں اک نغمۂ اول چمکا
اک تحمل نے دلِ زخم زدہ چیر دیا
اور ہر درد میں اک لذت بسمل چمکا
چشؔتی، ہر موج میں تحریر پگھلنے لگتی
جب تجلی کا کوئی سطر پہ آنچل چمکا