رقص میں حرف، صدا ساز میں تحلیل ہوا
رقص میں حرف، صدا ساز میں تحلیل ہوا
جب خلش بولی، تو مفہوم میں تمثیل ہوا
زخم جب حرف میں ڈھلنے لگا، افسانہ بنا
درد کا لمس بھی اب دیدۂ تعمیل ہوا
خامشی بول اٹھی ، خواب کی تفسیر بنی
لفظ کا عکس بھی اب نالۂ تنزیل ہوا
راکھ میں نورِ خودی کا کوئی مفہوم نہ تھا
آخری حرف بھی اک شعلۂ تحویل ہوا
نور جب خاک سے لپٹا، تو کوئی خواب کھلا
آئنہ زاد ، وہی پر توِ ترسیل ہوا
موجِ افکار میں لپٹا ہوا یک لخت سکوت
جب بکھرنے لگا ، اک شورِ تغافیل ہوا
کون سنتا ہے صدا ، ریزۂ امکانوں کی؟
خامشی خود ہی وہاں نعرۂ تنویل ہوا
حرفِ نافہم میں چھپ کر کوئی مفہوم جگا
اک نظر دیکھتے ہی نکتۂ تسجیل ہوا
مۓ چشتی کا تماشہ ہے تری چشمِ سخن
جس کو دیکھا ، وہی آئینۂ تأویل ہوا