گردشِ وقت، ستم گار کی ایسی تیسی
گردشِ وقت، ستم گار کی ایسی تیسی
ظلم کے سایۂ دیوار کی ایسی تیسی
ہم چراغوں کے محافظ ہیں ہوا کے آگے
خاک کردی ہے شبِ تار کی ایسی تیسی
عدل کے نام پہ تلوار چلا کرتے ہیں
نرخ پہ بکتی ہےسرکارکی ایسی تیسی
سرجھکانےکا ہنر ہم نےتو سیکھا ہی نہیں
کر دی زنجیر و گرفتار کی ایسی تیسی
ہم نے سچ بول کے طوفان بسا ڈالا ہے
خودہی کردی تری للکار کی ایسی تیسی
ہم نے ہر خواب کو تعبیر کی دہلیز دیا
اور کردی وہی دیوار کی ایسی تیسی
جو بھی نکلا تھا یہاں عدل کی خاطر لڑنے
کٹ گئی راہ میں تلوار کی ایسی تیسی
بک گئے جبہ و دستار بکا دینِ مبیں
بک گئی عظمتِ گفتار کی ایسی تیسی
ہم ہیں چشؔتی،ہمیں منصورکی راہیں پیاری
ہم نےٹھوکر میں رکھی دار کی ایسی تیسی