اپنی امت سے نہیں دین کے سلطان الگ
اپنی امت سے نہیں دین کے سلطان الگ
اس پہ ایماں ہے مرا، اور ہے ایقان الگ
لے کے جو جائیں گے اک روز مجھے شہر نبی
قلب میں پلتے ہیں میرے بھی وہ ارمان الگ
آپ کے آنے سے اے ماہ مبیں، نور بشر
ذرے ذرے کو ملا طیبہ کے، سمان الگ
مظہر حق اے مرے شاہ ترا غم مجھ کو
رنج و کلفت سے رکھا کرتا ہے ہر آن الگ
کی دوعالم کی عطا رب نے، عدالت ان کو
عدل میں رکھتے ہیں محبوب خدا شان الگ
عرش پر کیسے گیے، فرش سے، لمحے میں حضور
دیکھتی رہ گئی دنیا، ہوئی حیران الگ
امت فخر دوعالم میں ہوئے ہم پیدا
رب اکبر نے کیا ہم پہ یہ احسان الگ
ہم کبھی پیٹھ پہ خنجر نہیں مارا کرتے
"ہم غلامان محمد کی ہے پہچان الگ”
در پہ بلوا کے وہ اعزاز عطا کرتے ہیں
چاہتے جس کو بھی ہیں نائب رحمان الگ
دونوں عالم میں خسارہ ہی خسارہ ہوگا
ہو کے سرکار مدینہ سے اے انسان الگ
میرا ایمان یہ کہتا ہے، خدا سے اپنے
ایک لمحہ بھی نہیں نبیوں کے سلطان الگ
جس میں جبریل بھی آتے ہیں اجازت لے کر
فرش پر ہے وہ فقط آپ کا ایوان الگ
مجھ سے عاصی کو جہنم سے فقط تیرے سوا
کون کر سکتا ہے اے صاحب قرآن الگ
ان کی چوکھٹ سے ترے گھر کو ہے نسبت نازاں!
اس لیے رہتا ہے گھر سے ترے طوفان الگ