تضمین-یاد گل لے کے چلی سوئے بیاباں ہم کو

Dynamic Share Icon

اپنی چوکھٹ پہ بلالیں شہ خوباں ہم کو
کر رکھا ہے شب ہجراں نے پریشاں ہم کو
بہر حسنین ملے درد کا درماں ہم کو
"یاد گل لے کے چلی سوئے بیاباں ہم کو”
"چھوڑ دے اب تو اے دنیا کے گلستاں ہم کو”

ہم نے مانا کہ ہے تو حسن و ملاحت میں زبر
تیرے انداز و اداؤں میں بلا کا ہے اثر
تیرے چہرے کی تجلی ہے کہ پونم کا قمر
"ناز ہے تجھ کو کہ کھنچتی ہے تری سمت نظر”
"کھینچ لے اے کشش بزم حسیناں ہم کو”

امتحانات سے عشاق کہاں ڈرتے ہیں
عزت و عظمت جاناں کے لئے مرتے ہیں
حال کچھ بھی ہو مگر عشق کا دم بھرتے ہیں
"بے خطر وادئ پرخار کو طے کرتے ہیں”
"عشق میں دست بھی لگتے ہیں گلستاں ہم کو”

دل میں سرکار کی الفت جو بسائی ہم نے
جان بھی شاہ مدینہ پہ لٹادی ہم نے
ان کے کوچے سی نہ رونق کہیں پائی ہم نے
"سلطنت سید عالم کی جو دیکھی ہم نے”
"ایک گوشہ ہی دکھا ملک سلیماں ہم کو”

دونوں عالم میں شہ دیں سا نہیں کوئی حسیں
حور و غلماں نے کہا ہم بھی نہیں ہم بھی نہیں
یعنی سرکار کے جیسا نہ ہوا کوئی کہیں
"جانب شمس و قمر دیکھیں ، یہ فرصت ہی نہیں”
"مست رکھتے ہیں ترے عارض تاباں ہم کو”

سوچ کر سختیِ محشر ہی گدا ڈرتے ہیں
تپشِ نار سے ہی چھلنی جگر ہوتے ہیں
لے کے امید شفاعت کی سبھی آتے ہیں
"الاماں حدت عصیاں سے بدن جلتے ہیں”
"تیز ہے دھوپ ملے سایۂ داماں ہم کو”

دل میں بس مدحتِ سرور کا تھا ارماں لیکن
اپنی شہرت کا کیا ہم نے نہ ساماں لیکن
عشق کو ہم نے سمجھ رکھا تھا آساں لیکن
"غیرت عشق نے رکھا ہی تھا پنہاں لیکن”
"کردیا محفل حساں نے نمایاں ہم کو”

رب تعالی نے دیا ہے یہ نرالا منصب
نعت کا عنبر خستہ پہ ہے فیضان عجب
مدحتِ شاہ میں مصروف یوں ہی رکھ یا رب
"عشق منصور فریدؔی تھا سردار جو اب”
"دور سے کرتا ہے کیا کیا نہیں حیراں ہم کو”

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے