ان کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے

Dynamic Share Icon

واہ کیا تربتِ سرکار کی اونچائی ہے
دیکھ کر عرش کی اونچائی بھی شرمائی ہے
رونقِ خلد بھی اس در کی تمنائی ہے
"ان کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے”
"جیسے فردوس پہ فردوس اترآئی ہے”

زلف لہرا دیں جو سرکار تو ساون برسے
چاند کیا چیز ہے، وہ چاہیں، فلک ہو ٹکڑے
اور دندان مبارک سے اجالا پھوٹے
"پاؤں چھو جائے تو پتھر کا جگر موم کرے”
"ہاتھ لگ جائے تو شرمندہ مسیحائی ہے”

کیوں ضیا آج مہ و مہر کی شرماتی ہے
کس لیے شمس کی ضو ماند نظر آتی ہے
اُن کے ذروں کی قسم ضوئے قمر کھاتی ہے
"جانے کیوں عرش کی قندیل بجھی جاتی ہے
ان کے جلوؤں میں نظر جب سے نہا آئی ہے”

یا نبی آپ کے الطاف و نعم کی آہٹ
دل کو دیتی ہے سکوں خوب کرم کی آہٹ
دم میں دم ڈالتی ہے آپ کے دم کی آہٹ
"مل گئی ہے سرِ بالیں جو قدم کی آہٹ”
"روح جاتی ہوئی شرماکے پلٹ آئی ہے”

جن کو اٹھنا ہو گریں، اُن کے قدم پر ارشد
سر بخم دل سے رہیں، اُن کے قدم پر ارشد
عنبؔر آ ہم بھی چلیں، اُن کے قدم پر ارشد
"سر پہ سر کیوں نہ جھکیں ان کے قدم پہ ارشؔد”
"اک غلامی ہے تو کونین کی آقائی ہے”

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے