کوئی بھی شہر نہیں طیبہ نگر سے آگے
کوئی بھی شہر نہیں طیبہ نگر سے آگے
در تو کوئی بھی نہیں شاہ کے در سے آگے
آپ کی عظمت و رفعت کو بیاں کیسے کروں
” منزلیں آپ کی ہیں فکر بشر سے آگے "
جن کے ٹکڑوں پہ پلا کرتا ہے سارا عالم
کیوں نہ کہہ دوں کہ ہیں وہ شمس و قمر سے آگے
رب کعبہ نے کیا آپ پہ احسان عظیم
آپ سن لیتے ہیں سرکار خبر سے آگے
خود یہ تسلیم کریں حضرت جبریل امیں
آمنہ کوئی نہیں تیرے پسر سے آگے
اپنے جیسا تو انہیں کہتا ہے نجدی مردود
لا، دکھا، پہلے ابوبکر و عمر سے آگے
اذن سرکار ملے عنبؔر خستہ کو اگر
پھر مدینے کا مسافر ہو سفر سے آگے