فرطِ سرور و کیف کے باغ و بہار میں

Dynamic Share Icon

فرطِ سرور و کیف کے باغ و بہار میں
پلکیں بچھی ہوئی ہیں رہِ دیدِ یار میں

اس پھول کی مثال دوں کیسے میں آپ کو
رنگت نہیں ہے اس کی کسی لالہ زار میں

بارش میں بھیگتے ہوئے اک دل فگار کی
"گزری تمام رات ترے انتظار میں”

جاؤ وفا کی بات کسی اور سے کرو
اس کا اثر نہ ہوگا دلِ داغ دار میں

لطفِ ملال و حزن بھی برباد کر گیا
چین و سکون آکے دلِ بے قرار میں

خواب و خیال کا بھی وہی حکمران ہے
کچھ بھی نہیں ہے یار مرے اختیار میں

کیوں کر نہ دور ہوگی خزاں اب حیات سے ؟
رہتا ہوں آج کل میں خیالاتِ یار میں

زخمِ جگر دکھائے نوازشؔ کسے یہاں
مصروف ہر کوئی یہاں کاروبار میں

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 Comments