حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی انکساری
اس محفل میں حضرت احنف بن قیس تیمی بھی تھے ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت احنف بن قیس نے فرمایا کہ ہم لوگوں کو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک معرکہ کے لئے عراق کی جانب روانہ کیا ۔ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں عراق اور فارس کے متعدد شہر فتخ کروائے ۔ ہم نے وہاں سے چاندی پائی اور اس سے اپنے لباس بنواۓ ۔ جب ہم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں دیکھ کر اپنے منہ پھیر لیا ۔ ہمیں یہ بات گراں گزری تو ہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس ناراضگی کا سبب دریافت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ کیا تم نے حضرت سیدنا عمر فاروق کو ایسا لباس استعمال کرتے دیکھا جو حضور نبی کریم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نہ استعمال کرتے ہوں چنانچہ ہم گھر واپس گئے اور وہ لباس تبدیل کر کے آۓ اور جس لباس میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمیں دیکھا کرتے تھے اسی لباس میں ہم ان کے پاس گئے ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمیں دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور ہم میں سے ہر ایک سے سلام کیا ۔ ہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے مال غنیمت پیش کیا جو آپ رضی اللہ عنہ نے ہم لوگوں میں برابر تقسیم کر دیا ۔
اس دوران مال غنیمت میں سے چوہارے اور گھی کا حلوہ بھی نکلا ۔۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی خوشبو سونگھی تو آپ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اللہ کی قسم ! اے مہاجرین اور انصار کی جماعت ! تم میں سے بیٹا باپ سے اور بھائی بھائی سے اس کھانے پرلڑے گا ۔ پھر آپ نے اس کھانے کو ان لوگوں کی اولادوں کے پاس پہنچا دیا جو حضور نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں شہید ہو چکے تھے ۔ اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ واپس ہو لئے۔
صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ان کے جانے کے بعد فرمایا کہ اس شخص کے زہد کو اور اس کے حلیہ کو دیکھو اس شخص نے ہمارے نفوس کو بھی حقیر کر دیا ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں قیصر و کسری کے شہر فتح کروائے ، مشرق ومغرب میں اپنے دین کی سربلندی کے لئے ہمیں چنا اور جب ہم حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے لباس پر جا بجا پیوند ہوتے ہیں ۔
حضرت عمر فاروق کی عاجزی
حضرت قیادہ پانی فرماتے ہیں کہ حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو میں تم سے اچھا کھانا کھاؤں اور تم سے نرم کپڑے پہنوں لیکن میں اپنے طیبات کو باقی رکھنا چاہتا ہوں اور آخرت میں طیبات کا خواہاں ہوں ۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملک شام تشریف لاۓ تو آپ کے سامنے ایسا کھانا پیش کیا گیا جو انہوں نے پہلے بھی نہیں دیکھا تھا ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ میرے لئے ہے اور جو فقراء و مساکین وصال پا چکے ہیں انہوں نے جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہ بھرا ، ان کے لئے جنت ہے ۔
راوی کہتے ہیں یہ فرما کر حضرت سید نا عمر فاروق بے زاروقطار رونے لگے ۔ اور فرمانے لگے ۔ اگر ہمارا حصہ اس متاع دنیا سے ہے اور وہ لوگ جنت میں ہیں تو ان کے اور ہمارے درمیان فاصلہ زیادہ ہو گیا ہے ۔
ایک مرتبہ حضرت سید نا عمر فاروق نے معمول کے مطابق مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت فرما رہے تھے کہ آپ دوران گشت شہر سے باہر نکل گئے ۔شہر سے باہر آپ نے ایک خیمہ لگا دیکھا جس کے دروازے پر ایک اجنبی شخص نہایت پریشانی کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا ۔ آپ نے اس شخص کے پاس جا کر اس شخص کی پریشانی دریافت کی تو اس نے آپ سے بے رخی برتتے ہوئے کہا کہ میاں ! جاؤ تم اپنا کام کروتم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے ؟ اس دوران حضرت سید نا عمر فاروق نے کسی عورت کے کراہنے کی آواز سنی ۔ آپ نے اس شخص سے کہا کہ تم مجھے بتاؤ تو سہی کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے ؟ اس شخص نے کہا کہ میری بیوی حاملہ ہے اور اس وقت اس کے پاس کوئی عورت موجود ہے اور نہ ہی میرے پاس کچھ سامان موجود ہے ۔ حضرت سید نا عمر فاروق نے اس شخص کی بات سن کر گھر تشریف لے گئے اور اپنی زوجہ حضرت ام کلثوم بنت حضرت سیدناعلی کو ہمراہ لیا اور ساتھ ہی کھانے پینے کا سامان اور دوسرا کچھ سامان لیا اور اس شخص کے پاس پہنچے ۔ آپ کی زوجہ خیمے کے اندر چلی گئیں اور آپ باہر اس شخص کے پاس موجود رہے ۔ جب بچے کی ولادت ہو گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا کہ تم پریشان مت ہونا صبح میرے پاس آنا میں تمہاری مالی مدد بھی کروں گا اور تمہارے بچے کا وظیفہ بھی مقرر کروں گا ۔ اس شخص نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں عوام کا خادم عمر ہوں ۔ اس شخص نے جب آپ کا نام سنا تو اسے معلوم ہوا کہ آپ تو امیر المومنین ہیں وہ پریشان ہوا اور معذرت کرنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں عوام کا خادم ہوں۔